بس وہ دن تھا اور اس کے بعد کے تین دن۔ نینو نے نہ کچھ کھایا نہ کچھ پیا۔ نینا کے لاکھ سمجھانے کے باوجود وہ انکار ہی کرتا رہا ۔ چوتھے دن لالہ جی جب پنجرے میں جھانکے تو یہ دیکھ کر دنگ رہ گئے کہ ان کا قیمتی طوطا مینو مرا پڑا ہے ۔ اور اس کی مادہ نینا اس کے قریب ہی سر جھکائے بیٹھی ہے ۔
’’ہونہہ، مرگیا مردود‘‘ لالہ جی نے ناک سکوڑتے ہوئے کہا اور پنجرے میں ہاتھ ڈال کر پیروں سے گھسیٹتے ہو ئے نینو کو باہر نکالا اور کیاریوں میں پھینک دیا جیسے وہ کوئی طوطا نہیں ، سڑا گلا پھل ہو۔
نینا نے سر جھکائے یہ سارا منظر دیکھا ۔ شام تک وہ لالہ جی کے بارے میں سوچتی رہی ، ایک دفعہ نظر اٹھا کر باہر دیکھا تو چیونٹیوں کی ایک قطار نینو کے منھ میں جارہی تھی ۔ چند مکوڑے بھی ارد گرد گھومتے نظر آگئے۔ یہ دیکھ کر اس نے ایک سرد آہ بھری اور دھم سے گر گئی۔
لالہ جی چائے پیتے بیٹھ کر یہ منظر دیکھ رہے تھے ، انہوں نے جب نینا کو گرتے دیکھا تو اپنا سر پکڑ لیا ۔ ’’معلوم نہیں ، کیا بات ہے ، آج کل ہر جگہ بے ایمانی کا دھندا ہے ، کیسے پرندے دیے ہیں ٹھگو نے ، ایک صبح مرا تھا اب یہ دوسرا بھی مرگیا‘‘۔ چائے کی پیالی رکھ کر وہ بڑبڑاتے ہوئے اٹھے اور پنجرہ کھول کر نینا کو پیروں سے پکڑا اور باہر کھینچ لیا۔ مگر یہ کیا!! پنجرے سے باہر آتے ہی نینا پھڑ پھڑائی ، اور لالہ جی کے ہاتھ سے چھوٹ کر سیدھے اڑتی ہوئی احاطہ کی دیوار پر جابیٹھی۔
’’ ارے یہ تو زندہ ہے ‘‘ لالہ جی نے کفِ افسوس ملتے ہوئے کہا۔ نینا دیوار پر بیٹھی تھی اور لالہ جی چوکھٹ پر کھڑے تھے ۔ دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ ’’نینا ، نینا‘‘