دیا۔ لالہ جی نے تھوڑی دیر بعد نینا کو پکارا ۔ ’’نینا ، نینا‘‘ ۔ نینا نے جواب دیا ’’ لالہ ، لالہ‘‘
’’ہونہہ ، معلوم نہیں یہ نینو کو کیا ہوتا جارہاہے ، بیمار ہوگیا شاید‘‘۔ لالہ جی نے خود کلامی کے انداز میں کہا اور اندر کوٹھری کی طرف بڑھ گئے ۔ تھیلا کھول کر دانے برتن میں نکالنے لگے ۔ ’’ اف، ایک کلو لایا تھا، دو مہینے بھی نہیں گزرے ، سب کھا کر ختم کردیا ان دونوں نے ‘‘ لالہ دل ہی دل میں سوچ کر رہ گیا اور دانے لے کر پنجرے کی طرف بڑھ گیا۔
’’ تم نے لالہ جی کی پکار کا جواب کیوں نہیں دیا‘‘ ادھر نینا ، نینو سے پوچھ رہی تھی۔
’’اسی پر بس نہیں نینا! اب تو میں لالہ جی کی کسی پکار کا جواب نہیں دوں گا۔ آزاد طوطے کی بات میرے دل میں گھر کرگئی ہے‘‘ نینو نے اطمینان سے جواب دیا۔
’’ اونہہ، نہ جانے تمہیں کیا ہوگیا ہے ، خیر اب ڈھنگ سے بیٹھو ، دیکھو لالہ جی آرہے ہیں ‘‘۔نینا نے ڈالی پر جھولتے ہوئے کہا ۔
لالہ جی نے دانے کا برتن اندر کھسکایا ، لیکن پانی بدلنا بھول گئے ، نینا چیخ چیخ کر یاد دلاتی رہی مگر وہ اس کی بولی کیا سمجھتے ۔ ناشتہ کیا اور دکان پر چلے گئے ۔
نینا نیچے اتر کر دانہ چُگنے لگی۔ نینو اوپر ہی بیٹھا رہا۔ ’’آؤ نینو، آج روزہ ہے کیا؟ بھوک نہیں لگی؟ بھوک تو لگی ہے ، مگر کھانے کی بھوک نہیں ، آزادی کی بھوک لگی ہے ۔ آزادی کی بھوک‘‘۔
’’خیر تمہاری مرضی ، تم جانو اور تمہارا کام جانے ۔ نینا نے کہا اور خاموشی سے دانہ چُگنے لگی ۔ مگر آج اکیلے کھاتے ہوئے اسے کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا۔’’ کھانے کے بعد پیوگی کیا؟ پانی تو ہے نہیں ۔ نینو نے اوپر ہی سے پوچھ لیا۔
لالہ جی پانی رکھنا بھول گئے ہیں شاید، شام کو آکر رکھ دیں گے ‘‘ نینا نے بے دلی سے کہا۔