طنز کے تیر چلاتے ہوئے کہا ۔
نینو کچھ کہنا چاہتا تھا مگر نینا بیچ میں بول پڑی’’ جی بات یہ ہے کہ ہم کل رات ذرا دیر سے سوئے ہوئے تھے ، بس ابھی جاگے ہیں ، ابھی تھوڑی دیر میں ناشتہ آجائے گا۔ ہری مرچ اور سینڈوچ تو روز ملتے ہیں ، کبھی کبھار امرود بھی مل جاتا ہے ۔ نینا نے دروغ گوئی میں ذرا سا بھی تکلف نہیں کیا تھا۔ نینو ، نینا کی طرف بس دیکھتا ہی رہ گیا۔
’’اچھا یار ، اپنی سناؤ تم نے آج ناشتہ میں کیا پایا‘‘
’’ ایک چیز ہوتو بتاؤں ، مختلف چیزیں کھا کھا کر میرا تو پیٹ بھرچکا ہے ۔ بس ذرا اپنے بچے کے لیے کسی نرم غذا کی تلاش میں گھوم رہا ہوں ‘‘۔ نینو کے پوچھنے پر طوطے نے بتایا۔ پھر پر تولتے ہوئے کہنے لگا’’ اچھا چلتا ہوں دوستو، بس ایک بات کہتا ہوں برا نہ ماننا، تم دونوں انسانوں کی صحبت میں رہ کر بری عادتیں سیکھ رہے ہو۔ رات دیر سے سونا ، صبح دیر تک سوتے رہنا یہ اچھی عادت نہیں ۔ صبح کا سونا رزق میں کمی لاتا ہے اور ہاں ، جہاں تک ہوسکے آزاد ہونے کی کوشش کرتے رہنا ، اور موقع ملتے ہی بھاگ نکلنا، چلتا ہوں ۔ خدا حافظ ۔
’’ دیکھا ، کیسا آزاد پنچھی تھا۔ جہاں چاہا ، جو چاہا چُگ لیا اور پھر رات کو اپنے گھر واپس‘‘۔نینو نے آہ بھرتے ہوئے کہا۔
’’ ہونہہ ، آزاد پنچھی!، دیکھو کیسے اپنے بچے کی غذا کے لیے مارا مارا پھر رہا ہے ‘‘ نینا نے دل میں سوچا اور پنجرے کی آہنی دیوار سے لگ کر لالہ جی کا انتظار کرنے لگی۔ کچھ دیر بعد لالہ جی نے دروازہ کھولا ۔ پہلے پنجرے کو دیکھا پھر تالے کو۔ پھر اس سے مطمئن ہوکر اندر جھانکا ، دونوں موجود تھے ۔ ایک لمبی انگڑائی لے کر اس نے پہلے نینو کو آواز دی۔
’’نینو ، نینو‘‘ ۔ نینو ہانڈی پر بیٹھا ہوا تھا ، اس نے لالہ جی کی پکار کا کچھ جواب نہیں