دانہ پانی نہ ڈال دے ، مجھے اٹھانا مت‘‘۔ نینو یہ کہہ کر سیدھا ہانڈی میں گھسا اور گردن لٹکا کر آنکھیں موند لیں ۔
پورا ایک گھنٹہ گزر گیا۔ لالہ جی شاید رات دیر سے سوئے تھے ، صبح دیر تک سوتے پڑے رہے ۔ نینا کے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے تھے ، اس نے بادلِ نا خواستہ پنجرے کا ایک اور چکر لگایا۔ دو چار دانے ادھر ادھر مل ہی گئے، اس نے انہیں چُگ کر پانی پیا، پانی بہت میلا ہوچکا تھا ، چونچ مارتے ہی منھ کا مزا کِرکِرا ہوگیا۔ اچانک اس کی نگاہ سامنے احاطہ کی دیوار پر پڑی ، اسی کی رنگت کا ایک طوطا وہاں بیٹھ کر بڑے غورسے اسی کو دیکھ رہا تھا۔ نیناجلدی سے ہانڈی میں گئی اور نینو کو اٹھا دیا۔
’’نینو، جلدی اٹھو، ارے اٹھو تو سہی‘‘
’ ’ اونہہ ، کیا بات ہے ، لالہ اٹھ گیا ہے کیا‘‘
’’لالہ جی تو اٹھے نہیں ، مگر دیکھو سامنے دیوار پر ہماری برادری کا کوئی طوطا آیا ہوا ہے ‘‘۔ نینا کے جھنجھوڑنے پر نینو باہر نکل آیا۔ احاطہ کی دیوار پراجنبی طوطا ابھی تک بیٹھا ہوا تھا۔ ’’چیں چوں ، چیں چوں ‘‘ نینو نے اپنی مترنم آواز میں اسے متوجہ کرنے کی کوشش کی۔
طوطے نے بھی فوراً جواب دیا’’ کہو دوست، کیا حال ہے ‘‘
’’حال چال کیا پوچھتے ہو، دیکھ نہیں رہے ہو ہم کس اذیت ناک قید میں ہیں ‘‘۔ نینو نے جواب دیا۔
’’ نا جی! اذیت ناک، وذیت ناک کچھ نہیں ، بس ہم اپنے پنجرے میں آرام سے ہیں ۔ نینا بیچ میں بول پڑی۔
’’ جی وہ تو میں دیکھ ہی رہا ہوں ، ویسے آج ناشتے میں کیا ملا؟ ‘‘اجنبی طوطے نے