ہیں ، بس لالہ جی کے اٹھنے کا انتظار کررہی ہوں ‘‘
’’کرتی رہو انتظار ، میں تو سونے چلا، کمبخت لالہ جی، جلدی اٹھتا بھی تو نہیں ۔ نینو نے تنک کر کہا۔
نینا بھڑک اٹھی’’ جب دیکھو لالہ جی کی شکایت کرتے رہتے ہو، یہ نہیں دیکھتے کہ اس نے ہمیں کتنے خوبصورت پنجرے میں کیسے آرام سے رکھا ہے ، روزانہ ہمارے لیے پانی وہ خود لاتے ہیں ، چارے کا انتظام اپنی کمائی سے وہ خود کرتے ہیں ، صبح وشام ہماری دیکھ بھال کرتے ہیں ، اور پھر پنجرے میں کھانے کے لیے دانے کا برتن ، پینے کے لیے پانی کا برتن ، سونے کے لیے ہانڈی ، اور کھیلنے کے لیے جھولا ، ڈالی ؛ سب کچھ تو موجود ہے ۔ وہ تو شکر کرو کہ ہم پنجرے میں آرام سے جی رہے ہیں اور لالہ جی ہمارے محافظ ہیں ۔ اگر کھلے آسمان میں اڑتے ہوئے تو اب تک نہ معلوم کس چیل کے شکار ہوجاتے یا کس عقاب کی نظروں میں آجاتے ۔ تمہیں معلوم ہے نا، عقاب طوطوں کو بہت رغبت سے کھاتا ہے ۔ وہ ہمارا خاندانی دشمن ہے ‘‘ نینا نے دل کی ساری بھڑاس نکال لی۔
’’ اری نادان ، آزادی سے کھلے آسمان میں اڑنے کا جو مزا ہے ، وہ اس قید وبند کی زندگی میں کہاں ۔ تو کیا سمجھتی ہے ، لالہ جی ہمارے لیے دانہ پانی کا انتظام یوں ہی کررہا ہے ۔ وہ تو اس لیے ہماری دیکھ بھال کرتا ہے کہ ہم خوش رنگ ہیں ، ہماری وجہ سے اس کے گھر کی زینت بڑھتی ہے ۔ہم اس کی اور اس کے بچوں کی آوازوں کی نقل اتار کر اس کا دل بہلاتے ہیں ، مہمانوں کے سامنے وہ فخر سے ہمیں پیش کرتا ہے ، ہماری میٹھی آواز سے اس کے مہمانوں کا بھی دل بہلتا ہے ۔ اگر ہم میں یہ سب خوبیاں نہ ہوتیں تو کیا وہ ہمیں گھاس ڈالتا۔ خیر تجھے سمجھانا میرے بس کی بات نہیں ۔ میں سونے جارہا ہوں ، جب تک لالہ آکر