کہ مسلمان اصلاح کے متعلق اپنی فکر میں بھی اختلاف پیدا نہ کریں اور جو کچھ بھی تجاویز اور قرار داد منظور ہو ان پر متفقہ طور پرعمل کریں ۔ اب اس بات کی ضرورت ہے کہ مسلمان اپنی اس غلطی کو دوبارہ نہ دہرائیں ۔ ہماری یہ عادت سی بن گئی ہے کہ اصلاحِ معاشرہ یا کسی بھی کام کے لیے کوئی ادارہ یا انجمن قائم ہوتی ہے تو دوسرے ہی دن اس کے مقابل میں ایک دوسرے ادارے کے قیام کے اعلانات اخبارات میں شائع ہوجاتے ہیں ، اسلامی مزاج اجتماعیت کا حامل ہے اور اس نے ہمیں جو نظام عطا فرمایا ہے وہ امارت کا نظام ہے ، یعنی مسلمان اپنا کوئی بھی کام جماعت کی شکل میں انجام دیں اور جماعت کا ایک امیر بھی ہو۔ اس لیے اصلاح معاشرہ کے لیے بھی دنیوی طریق پر ادارے اور انجمنیں قائم کرکے صدر وسکریٹری کا انتخاب کرنا اور اجلاسوں و مذاکروں کے ذریعے کا م کرنے کے بجائے اگر جماعت کی شکل میں امیر کے ماتحت اور مشورے کے ساتھ کام کریں گے تو انشاء اللہ اللہ تعالیٰ کی مدد بھی شامل حال ہوگی اور انشاء اللہ زیادہ موثر انداز میں کام بھی انجام پائے گا ۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہمارے ہر کام میں اخلاص وللٰہیت کا ہونا بھی ضروری ہے اگر اخلاص نہیں ہوگا تو ہمارے ساتھ اللہ کی مدد بھی نہیں ہوگی اور اللہ کی مدد کے بغیر کوئی بھی کام پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم کوئی بھی عمل کریں ہمارا مقصود صرف رضائے الٰہی ہونا چاہیے ، اصلاح معاشرہ کاکام بہت اچھا کام ہے ، مگر کام کرنے والوں میں بھی اچھائی کا ہونا ضروری ہے کہ ہم کوئی بھی کام کریں چاہے وہ اصلاح معاشرہ کا کام ہو یا کسی اور میدان میں ہم کام کریں درمیانہ روی اور اعتدال کی راہ اختیار کریں ، اس لیے کہ اسلامی تعلیمات اعتدال کی تعلیمات ہیں اور عربی کا مشہور مقولہ ہے کہ بہترین کام وہ ہیں جن میں اعتدال اور میانہ روی اختیار کی جائے ۔ ایسا نہ ہو کہ ابتداء