اجلاس ہوا تھا جس میں تمام مکاتب فکر کے مقتدر علماء کرام اور متعدد شعبہائے زندگی سے وابستہ مسلم دانشور جمع ہوئے تھے ، اس اجلاس میں غور وفکر بھی ہوا تھا افہام وتفہیم بھی۔اور علمائے کرام کے بیانات بھی ہوئے تھے ، بیانات کو سن کر عوام نے واہ واہ کی اور اہل شعور نے اس پر تبصرے کیے اور بس اس سے زیادہ کچھ حاصل نہیں ۔ اس اجلاس میں ایک قرار داد منظور کی گئی جس میں اور دوسری باتوں کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ مسلمان اپنے نکاح مسجد میں انجام دیں ۔ اور مساجد کے ذمہ دار دفتر نکاح اور قاضی کو مسجد سے باہر فراہم نہ کریں ۔ مجلس اصلاح معاشرہ بھی قائم کی گئی ، اس کے ٹھیک ایک ہفتہ بعد ایک دوسرے اجلاس میں ایک قرار داد منظور کی گئی کہ مسجد میں نکاح کرنا ضروری نہیں ہے اور مسلمانوں کو اس پر مجبور کرنا اور دفتر باہر دینے سے انکار کرنا سخت ظلم اور خلافِ شریعت ہے ۔ اس کے بعد ایک ہنگامہ برپا ہوگیا اور کئی دنوں تک یہ ہنگامہ رہا۔ پھر قبرستان کی سی خاموشی چھاگئی۔
اب تقریباً سات سال بعد ایک اور لڑکی جہیز کی بھینٹ چڑ ھ گئی تو ایک بار پھر ہنگامہ شروع ہوگیا ہے ، اب دیکھنا ہے کہ یہ کتنا دیر پا اور مؤثر ہوگا ۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اصلاح معاشرہ والے اب تک کیا کرتے رہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ اصلاح معاشرہ کو جگانے کے لیے ہر بار ایک معصوم لڑکی کی بلی دینی پڑے گی۔ اگر واقعی اصلاح معاشرہ کا کام کرنا ہے تو ہر وقت اور ہمیشہ فعال رہنا چاہیے۔
کسی بھی کام کو مؤثر بنانے کے لیے دو باتیں بہت ضروری ہوتی ہیں ، ایک اجتماعیتِ قلوب، دوسرا اتحادِ فکر ، یعنی اول یہ ہے کہ تمام مسالک ومکاتب کے فروعی جزئی اور نظریاتی اختلافات کو بھلا کر ایمان کی بنیاد پر ایک ہوجائیں اور حقیقی معنوں میں کالجسد الواحد یعنی ایک ہی جسم کی طرح متحد ہوکر اصلاح معاشرہ کی فکر کریں اور دوسری بات یہ ہے