۔ گھروں کو لوٹا گیا ، کاروبار تباہ کئے گئے ، کئی گاڑیوں کو نقصان پہنچایا گیا ، کتنوں کی جانوں سے کھیلا گیا۔ اور ہمیشہ کی طرح اصل مجرم اپنے من میں مست ہیں اور ان مجرموں کے کرتوتوں کی وجہ سے بہت سارے بے قصور معصوموں کو تھانے میں بند کردیا گیا ہے ، یہاں تک کہ جیل بھی بھیج دیا گیا ہے (اللہ تعالیٰ ان بے قصوروں کی جلد رہائی فرمائے )۔
بات بالکل آسانی سے ختم ہونے والی تھی ، آسانی کے ساتھ آپس میں اتحاد کا مظاہرہ کرتے اورصلح حدیبیہ کے منظر کو سامنے رکھ کر بات ختم کردیتے ۔ خواہ مخواہ بات کا بتنگڑ بنا کر اس کو بہت بڑا مسئلہ بنا لینے کی وجہ سے جو لوگ مزدور طبقے کے ہیں ، خصوصاً کے جی ہلی، عربک کالج، خوشحال نگر اور اطراف واکناف کے محلوں میں اکثر ایسے لوگ ہیں جو روز کی روڑی روز کمانے کھانے والے ہیں ، اگر ایک روز نہ کمائیں تو سارا گھر فاقہ کشی کا شکار ہوجاتا ہے ۔ ان لوگوں کے گھروں میں کیا گذری ہوگی ، خدا ہی بہتر جانتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ ان مزدوروں کے گھروں میں معصوم بچے ضرور ہوں گے ، وہ بچے اپنی بھوک کیسے برداشت کیے ہوں گے ۔
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ سارے فساد اور مجبور وبے کس عوام پر جو مشکلات کے پہاڑ ٹوٹے ہیں ، ان سب کا اصل مجرم کون ہے ؟ اس کی صحیح جانچ پڑتال کرنے کے بعد ان مجرموں کو واقعی کیفر کردار تک پہنچانا سرکاری اداروں کی ذمہ داری ہے ۔ ان مجرموں کو ایسی سزا دی جانی چاہیے جو دوسروں کے لیے عبرت کا سامان ہو ۔ اسی کے ساتھ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ بلوائی اور سماج دشمن عناصر تو ایسے موقع کا انتظار کرتے رہتے ہیں ، کیا وہ لوگ بھی مجرم نہیں ہوتے جو سماج دشمن عناصر کو ایسے مواقع فراہم کرتے ہیں ، اس لیے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان تمام حالات میں اصل قصور کس کا ہے ، بلوائیوں کا یا جھنڈے کا؟
مطبوعہ روزنامہ پاسبان 19/07/1998