زیوارت کپڑے فرنیچر ، اثاث البیت ظواہر معیشت ہیں اسلام میں معاشی مساوات تو نہیں مگر ظواہر معیشت اور ظاہری بودوباش میں مساوات ضروری ہے اجنبی آدمی کو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کی مجلس بیٹھے ہوئے نبی کریم ﷺ کو ن ہے کرکے دریافت کرنا پڑتاتھا ایک صحابی ؓ نے اپنے مکان پر بالاخانہ بنوالیا تو اس صحابی ؓ سے حضور ﷺ نے اعراض (منہ موڑ لیا) فرمایا ۔یہی حال خلفائے راشدین کا تھا قیصر وکسریٰ کے خزانے ہونے کے باوجود خلیفۃ المسلین اور دیگر عام آدمیوں میں کوئی ظاہری اور نمایاں فرق نہ تھاکوفہ وبصریٰ کے شہر آباد کئے گئے توہدایت دی گئی کہ تین کمروں سے زیادہ کمرے والا مکان نہ بنایا جائے لہٰذا ظواہر معیشت میں مساوات قائم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ سامان جہیز ہی نہیں بلکہ تقریب نکاح میں شامل مستورات کے زیورات اور ملبوسات میں بھی میانہ روی کو رواج دیا جائے اور لوگوں کے سامنے زیب وزینت اور تکبر سے بچا جائے کیونکہ یہ شیوۂ قارون ہے قرآن کہتا ہے وَلاَ تَبْغِ الْفَسَادَ فِی الْاَرْضِ کے مترادف ہے۔
افسوس ہے کہ ہمیں دنیا کے سامنے تو اپنی ناک اونچی رکھنے کی فکر ہے مگر میدان محشر میں اپنے آقا ومولا کے روبرو ناک سرخ رو ہونے کی فکر نہیں رکھتے ۔ آئیے ہم عہد کریں جو بھی کام کریں خدا کی خوش نودی ہمارا مقصود ومطلوب ہو اور جہیز جیسے کینسر کے خاتمہ کا بھی عہد کریں ۔ خداتعالی ہمیں لوگوں سے بھیک مانگنے والے کے بجائے لوگوں کو دینے والا بنائے اور مخلوق کے بجائے خالق کے خزانۂ قدرت سے ہمیں اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے والا بنائے ۔(آمین)