پہلے آدابِ نکاح، شوہر وبیوی کے حقوق اور مہر کی شرعی حیثیت وغیرہ اچھی طرح سمجھائیں ۔ در اصل خطبۂ نکاح کا مقصد بھی یہی ہے ، اس لیے بہتر ہے خطبۂ نکاح میں اللہ رب العزت کیا بتانا چاہتا ہے ، اسے بیان کریں اور خطبے کا ترجمہ بھی پڑھ کر سنادیں تاکہ نئی زندگی کا سبق قرآن ہی سے حاصل کیا جائے ، اس طرح کریں گے تو ایمان میں تازگی آتی ہے ۔
نکاح خوان کو چاہیے کہ طرفین کو ترغیب دلا کر مہر لڑکے سے حسب استطاعت متعین کرائیں اور نکاح کی مجلس ہی میں مہر ادا کردیا جائے ورنہ اکثر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ بہت سارے لوگ جو دادا اور نانا بن گئے ہیں اس بات سے واقف ہی نہیں ہے کہ مہر بھی کوئی ادا کرنے کی چیز ہے ۔ اگر میں اپنے بزرگوں کو اس بات کی طرف متوجہ کروں تو بے ادبی نہ ہوگی کہ وہ اپنی بیویوں کو ہزاروں کے زیورات اور اشیاء دلاتے ہیں مگر مقررہ مہر ادا نہیں کرتے ، جب شوہر کا انتقال ہوجاتا ہے تو بڑی خواتین ، بچی کو جنازے کے پاس لا کر کھڑا کردیتے ہیں اور مہر بخشوانے کہتے ہیں جوکہ سراسر غلط ہے ۔
بعض جگہ لڑکی والے مہر کی رقم لکھوانے میں بہت ہی ہٹ دھرمی کرتے ہیں پچیس ہزار ، پچاس ہزار لکھیں ۔ (ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اپنی بچی کا سودا کررہے ہیں ) جب کہ اس کے ادا کرنے کی لڑکے میں بالکل طاقت نہیں ہوتی۔ اس طرح مہر کی رقم کے ساتھ اخیر میں ۷۸۶ لکھاتے ہیں ، جس کی نہ قرآن میں دلیل ہے نہ حدیث میں ۔ بہتر یہ ہے کہ اس رواج کو ختم کیا جائے ۔
اگر ان باتوں کے ساتھ قاضی ، نکاح خواں ، لوگوں کو طلاق کے مسائل سے بھی آگاہ کردیں اور لوگوں کو معلوم کرادیں کہ نکاح کے بعد ان دونوں کارشتہ کیا ہوگا اور ان پر کیا کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں تو بہتر ہے ۔ورنہ آج کل یہ عام ہوگیا ہے کہ لوگ علماء کرام کو یہ پوچھ پوچھ کر پریشان کرتے رہتے ہیں کہ میں نے غصے کی حالت میں طلاق دی ، اب مجھے