فاطمہ ؓ کے لئے خو شبو بھی مہر کی رقم سے منگوائی یہ سب کچھ تعلیم امت کے لئے تھا ورنہ آپ ﷺاگر چاہتے تو احد کے پہاڑ کو سونا بنا کر حضرت فاطمہؓ کو جہیز میں دے دیتے ۔اس کے باوجود یہ رسم (والدین کا شادی کے موقع پر سامان جہیز دینا )ہمارے معاشرے میں جڑ پکڑ چکی ہے دوسری بات یہ ہے کہ پوری تقاضے کے تحت کوئی باپ یہ نہیں چاہتا کہ وہ اپنی نورِ نظر لختِ جگر کو ہمیشہ کے لئے رخصت کرتے وقت بطورِ نشانی دکھ نا دے تو اس رسم کو چند قیود کے ساتھ (الاصل فی الاشیاء الا باحت) کے تحت مباح کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔
جس ہندو معاشرہ سے یہ رسم آئی تھی جس کے بغیر شادی ہی نہیں ہو سکتی اور جس کی وجہ سے معاشرہ میں کئی ایک معاشی معاشرتی اور اخلاقی برائیاں جنم لے رہی ہیں بلا ضرورت زیادہ ساز وسامان شریعت کی نگاہ میں ناپسندیدہ ہے ایسے سامان کی کیا ضرورت کیا فائدہ جس کے استعمال کی زندگی بھر نوبت نہ آئے اور وہ صرف کمروں کی زینت بنا رہے نہ دین کا فائدہ نہ دنیا کا فائدہ اور پھر اس مقصد کے لئے بلا ضرورت اتنا قرض اٹھانے کی کے ضرورت کہ انسان بعد میں ساری زندگی قرض کے بوجھ تلے کراہتا رہے شادی کے موقع پر سامان جہیز برادری یا اہل محلہ کو دکھانے کی قطعی پابندی لگائی جائے یہی دکھاوا فساد کی جڑ ہے اسی سے مسابقت کا جذبہ اور رحجان پیدا ہوتا ہے والدین آخر اپنی بیٹیوں کو صرف شادی کے موقع پر ہی نہیں دیتے وہ تو ساری زندگی حسبِ استطاعت و حسبِ توفیق اپنی بیٹیوں کو ہدایہ تحائف دیتے ر ہتے ہیں شادی کے بعد کچھ دیا جاتا ہے تووہ کبھی نہیں دکھایا گیا جب معاملہ یوں ہے تو شادی کے موقع پر یہ سازوسامان کی نمائش کی کیا ضرورت ؟جب یہ پابندیاں لگ جائیں توپھر اس چیز کی بھی ضرورت نہ رہے گی تو اتنی مالیت کا جہیز ہوسکتا ہے ورنہ تو قانوناً ہوگا ۔