قرض کا بڑا بوجھ اٹھاتا ہے حالانکہ اس کا یہ کا م ( قرض لینا دکھاوے کے لئے) حرام ہے۔
اب ذرا یہ بھی دیکھئے کہ اگر ایسا نہیں کرتا تو برادری میں سوسائٹی میں اس کی ناک کٹتی ہے ، لوگوں میں جھوٹی شان کے لئے اپنی پوزیشن کو باقی رکھنے کے لئے اور اپنے آپ کو بڑا مالدار بتانے کے لئے شہرت حاصل کرنے کے لئے کیا کچھ نہیں کیا جاتا ۔ حلال و حرام میں فرق کئے بغیر دولت کماتا ہے چیزوں میں ملاوٹ اصل دکھا کر نقل دیتا ہے ترازو میں کمی کر تا ہے لوگوں کو دھوکا دیتا ہے وغیرہ وغیرہ
اس سے بڑھ کر یہ کہ جہیز مہیا کرنے کے لئے لڑکی خود ملازمت کرتی ہے دفاتر بینکوں میں اور شاپنگ سینٹرس میں غیر مردوں کے ساتھ میل جول ہوتا ہے بسوں میں دھکے کھانے پڑتے ہیں وغیرہ ۔ بعض بیچاری مجبور ہیں اگر ایسا نہیں کریں تو سامانِ جہیز نہیں بنتا اگر سامانِ جہیز نہیں بنتا تو انہیں بطورِ بیوی کوئی قبول کرنے تیار نہیں ہوتا ۔ بہت سی ایسی لڑکیاں بھی ہیں جن کے ارمانوں کا محض جہیز نہ ہونے کی وجہ سے خون ہوتا رہتا ہے۔
لوگوں میں اپنا نام اونچا رکھنے کے لئے قرض جیسا بوجھ اٹھایا جاتا ہے قرض دار کے بارے میں حدیث میں آتا ہے کہ حضور ﷺ محب الفقراء والغربا والمساکین کی ذات ِ بابرکت نے بھی مقروض کی نمازِ جنازہ پڑھنے سے گریز فرمایا ہے بعض مرتبہ جہیز کے لئے قرض کا بوجھ اٹھانے والا والد بھائی اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے بعد میں اس کی اولاد یا بھائی بہن طویل مدت اس بوجھ تلے دبی کراہتی رہتی ہے۔
اس سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ شادی پر لڑکی کو والدین کا جہیز دینا کوئی شرعی حکم نہیں ہے نہ ہی یہ نکاح کے لوازم میں سے ہے اور نا ہی سنت ہے جہیز کا جملہ سامان مہیا کرنے کا ذمہ دار شوہر ہے گھریلو سامان تو الگ رہا نبی آخر الزماں ﷺنے حضرت