حضورﷺ نے اس میں ایک مٹھی بھر کر فرمایا کہ بلالؓ ! اس رقم کی خوشبو خرید کر ہمارے پاس لائو اور پھر حضور اقدسﷺ نے لوگوں کو حکم دیا کہ فاطمہؓ کا سامان تیار کرو۔ چنانچہ ان کے لئے ایک بنی ہوئی چارپائی اور ایک چرمی تکیہ جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی تیار کئے گئے۔
عموما رسوم کی ابتداء نیک جذ بات باہمی رضامندی و تعاون اور اعلیٰ مقصد کے ماتحت کی جاتی ہے لیکن زمانہ گذرنے کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ اسراف تکلف اور دکھاوہ آتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ پورے معاشرے کے لئے کئی ایک مسائل کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ کچھ ایسا ہی رسم جہیز کا ہوا ہے ہمارے ہاں کچھ نوابوں ، مالداروں ، جاگیر داروں ، سودخوروں اور رشوت خوروں نے اپنی بے محنت اور ناجائز طریقے سے کمائی ہوئی دولت کی نمائش اپنی بیٹیوں کی شادیوں میں جہیز کی شکل میں اس طریقے سے کی کہ ان کی دیکھا دیکھی متوسط طبقے کے لوگ بھی ان کے نقشِ قدم پر چل نکلے اب بیرونی ممالک کے ڈالر پونڈ ریال نے اس کو وبالِ جان کردیا ہے۔ جہیز کی شکل میں اپنی دولت کی نمائش اور اظہارِ برتری (لوگوں میں جھوٹی شان) کی ایک دوڑ لگ گئی ہے۔
ہر آدمی ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی فکر میں ہے جہیز صرف ضرورت کی چیزوں تک محدود نہ رہا بلکہ جہیز کے نام پرعیش و عشرت کے سامان مثلا کار بنگلہ پلاٹ فریج ٹی وی ، وی سی آر اور اے سی وغیرہ وغیرہ کے انبار لگنا شروع ہوگئے ہیں ۔
مسندِ احمد کی مختصر شرح احمد عبد الرحمٰان نے ایک سچی تصویر کھینچی ہے فرماتے ہیں ہمارے زمانے کے لوگ جہیز کے معاملے میں ایسے اسراف اور فضول خرچی میں پڑ گئے ہیں جسکی کوئی ضرورت نہیں اور مقصود صرف اپنی بڑائی کو ظاہر کرنا ہے یہاں تک کہ فقیر اور غریب آدمی اپنی بیٹی کو جہیز دینے کے لئے اپنے گھر کے سامان تک فروخت کردیتا ہے اور