کردو توالحمد اللہ اور اگر نہ کرو تو سبحان اللہ ! ان لوگوں نے (قبیلے والوں نے) کہا گھبرائو نہیں تمہاری شادی کر دی جائے گی اور سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں ۔
اس واقع میں کہیں جہیز لانے کا ذکر نہیں ہے اگر اس دور میں جہیز کا رواج ہوتا تو ضرور جہیز کے تعلق سے بات ہوتی معلوم ہوا کہ جہیز کی لعنت اب شروع ہوئی ہے اگر کوئی آدمی عورت کے نان ونفقہ کی استطاعت نہیں رکھتا تووہ شادی کا مکلف ہی نہیں ہے(مشکوٰۃ ۲۶۷)
یہ بات معلوم ہوگئی کہ سامان شوہر کے ذمہ ہے المحلی لا بن حزم میں ہے کہ عورت کواس بات پر مجبور کرنا جائز نہیں ہے کہ وہ خاوند کے پاس سامان لائے نہ ہی اس مہر کی رقم سے جو خاوند نے اسے دی ہے اور اس کے دوسرے اپنے مال سے سامان لائے مہر سارے کا سارا اس کی ملکیت ہے اس میں وہ( بیوی)اپنی مرضی سے جو چاہے کرے۔
نکاح شریعت میں محض شہوت کی تسکین کا ذریعہ نہیں بلکہ اس بندھن سے متعدد دینی، دنیاوی، ظاہری، باطنی ،جسمانی، روحانی، معاشرتی، تمدنی اورعمرانی فوائد مقصود ہیں ۔ قرآنی مفہوم میں نکاح اولاًمیاں بیوی کا درمیان اور زوجین کے خاندانوں کے درمیان تسکین وطمانیت قلوب محبت ومورت شفقت و رحمت کا ایک موثر سبب ہے آنحضرت ﷺ نے سب شادیاں اسی نقطہ نظر سے فرمائیں ۔یہی وجہ ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہؓ کے سوا حضورِ کونین ﷺ کی تمام ازواج مطہرات بیوہ تھیں اسلامی نقطہ نظر سے اس پاکیزہ رشتہ کو تجارت کا درجہ دیدینا یا ذریعہ تجارت بنالینا جائز نہیں ۔
تمام کتبِ حدیث میں کتاب النکاح کے اندر ایسی بہت سی روایتیں ملتی ہیں جس میں رحمتِ عالمین ﷺ نے مال ومنال اور دولت وثروت کے حصول اور طمع و لالچ