نہیں کیا جائے گا حتی کہ اگر مہر کی رقم سامان بیت (گھریلو سامان )کی نیت سے زیادہ رکھی جائے تو بھی عورت پر گھریلو سامان لازم نہیں کیوں کہ مہر کی رقم اس عورت سے فائدہ اٹھائے جانے کے مقابلے میں ہے نہ کہ سامان جہیز کی تیاری کے لئے ہے۔ مہر میں صرف اور صرف بیوی کا حق ہے اس میں نہ والدین کا حق ہے نہ شوہر کا حق ہے۔
یہ بات تو ثابت ہوگئی ہے کہ سامانِ جہیز شرعا شوہر کے ذمہ واجب ہے ۔جب بیوی اس کے گھر جائے تو جملہ جائز ضروریات کا وہ ضامن ہے مگر اس پر یہ لازم نہیں کہ عین شادی کے موقع پر (جیسا کہ ہمارے معاشرے میں رواج ہے لوگوں کے سامنے اس کی نمائش کرتے رہے غریب لوگ بھی ان سارے زیورات اور کپڑے فرنیچر اسکوٹر کار وغیرہ چیزوں کو دیکھ کر اپنے دلوں میں ارماں لگائے افسوس کرتے رہ جاتے ہیں )دورِ نبوی ﷺ میں سوائے حضرت فاطمہ ؓ زہرہ کی شادی کے موقع پر کوئی شادی ایسی نظرنہیں آئی کہ عین شادی کے موقع پر خاوند کی طرف سے جہیز کا سامان دیا گیا ہو۔ حضرت فاطمہ ؓ زہرہ کے سامان کی پیشگی تیاری کی ضرورت بھی صرف اس لئے آئی کہ حضرت علی المرتضیٰؓ حضورﷺ کے زیرکفالت تھے ،ان کا الگ مکان یا گھریلو سازوسامان نہ تھا ورنہ حضورﷺ ازواجِ مطہرات کی باقی تینوں بناتِ اطہر کی شادیوں کے موقع پر ایسا ہوا نہ ہی اپنی ازواجِ مطہرات کے ساتھ نکاح کے موقع پر کسی قسم کا جہیز دیا گیا ہے ۔
آخر زندگی بھر میں بیوی کو جو کچھ کھانا پینا دوا کرنا ہے وغیرہ وغیرہ ا سے توکوئی نہیں دکھاتا۔ امام غزالی نے لکھا ہے کہ حضرت بلالؓ حبشی اور حضرت صہیبؓ ایک قبیلے کے پاس آئے اور انہیں پیغامِ نکاح دیا انہوں نے پوچھا تم کون لوگ ہو؟ ان لوگوں نے کہا کہ ہم گمراہ تھے ،ہمیں اللہ نے ہدایت نصیب فرمائی؛ہم غلام تھے ،اللہ نے ہمیں آزاد فرمایا؛ہم غریب پریشان حال تھے، اللہ نے ہمیں مالدار غنی بنایا؛ اگر تم ہم سے اپنی لڑکیوں کی شادی