سے کوئی کتاب نہیں اگر یہ کوئی شرعی حکم ہوتا تو کوئی وجہ نہ تھی کی جہاں نکاح سے متعلق دیگر احکامات مثلا نان و نفقہ مہر حسن معاشرت طلاق اور عدت وغیرہ کا تفصیلی بیان ہے وہاں جہیز کا بیان نہ ہو۔ سنن نسائی جلدد وم باب جہاز البنت کے ماتحت آنے والی حدیث سے مروجہ جہیز کو شرعی حکم سمجھنا غلط ہے بیوی کے جملہ جائز ضروریات اور اخراجات کا شرعا ذمہ دار خاوند ہے۔ فقہ کی مشہور کتاب ہدایہ میں ہے بیوی مسلمان ہو یا کتابیہ اس کا ہر قسم کا خرچہ خاوند پر واجب ہے جبکہ وہ (بیوی) اپنے آپ کو شوہر کے سپرد کر دے اور اس کے گھر منتقل ہو جائے اس خرچہ میں روٹی کپڑا اور مکان داخل ہے اور اس حکم کی بنیاد پر باری تعالی کا یہ ارشاد ہے کہ’’ وسعت والے کو اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرنا چاہئے‘‘ ظاہر ہے کہ جب رہنے کا مکان خاوند کے ذمہ ہے تو ایک مکان میں رہنے کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہو سکتی ہے اور اٹھنے بیٹھنے کھانے پینے اور سونے کے لئے جن چیزوں کا استعمال میں لانا ضروری ہے اور جن کوہمارے اصطلاح میں جہیز کہا جاتا ہے وہ بھی خاوند کے ہی ذمہ ہے ۔
مالکی فقہا کے نزدیک اگر چہ جہیز کے سامان کی تیاری عورت کے ذمہ ہے مگر اسی کے ساتھ یہ بھی ہے کہ وہ یہ سامان پیشگی رقم مہر سے بنائے گی نہ کے اپنے ذاتی مال یا والدین کے مال سے اگر شوہر کی طرف سے پیش کی گئی کوئی رقم رخصتی سے قبل اس کے پاس نہ بھیجی جائے تو اس پر سامان جہیز لازم نہیں ہے ۔اگر عورت نے پیشگی مہر میں سے کوئی جہیز نہ لی ہو تو اس پر جہیز کا مہیا کرنا لازم نہیں ۔ سید سابق نے اسی کو مزید وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے لکھتے ہیں کہ شرعی طور پر گھر کے لئے ہر اس کا مہیا کرنا جس کی احتیاج ہوتی ہے مثلاً سامان بسترے برتن وغیرہ کا ذمہ دار خاوند ہے ان مذکورہ چیزوں کے بارے میں عورت سے سوال