انہیں رسومات میں ایک مروجہ رسم جہیز کی تھی ہندو چونکہ لڑکیوں کو اپنی جائیداد میں سے حصہ نہیں دیتے تھے اس لئے شادی کے وقت اکٹھا ہی جو کچھ میسر ہوسکا جہیز کے نام سے لڑکی کے حوالے کر دیا کرتے تھے ہندوئوں کی دیکھا دیکھی یہ رسم مسلمانوں میں جڑ پکڑنے لگی یہاں تک کہ جہیز کو شادی سے جدا نہ ہونے والی چیز بنادیا گیا اور اس رسمِ قبیح کاحاصل یہ ہوا کہ غریب والدین کے لئے دردِ سر بن گئی۔
بظاہر اس سے چھٹکارہ پانے کی کوئی صورت نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے اسلام ایک مکمل دین ہے جس نے انسانی زندگی کے ہر شعبہ میں رہنمائی فرمائی ہے اور خود نبی کریمﷺ اور حضرات صحابہ کرام کا طرزِ عمل ہمارے سامنے ہے اور بعد میں ہمارے ائمہ مجتہدین اور فقہائے عظام نے کوئی ایسا مسئلہ نہیں چھوڑا جس کی قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت نہ فرمادی ہو۔ ضروریات انسانی میں نکاح اور شادی انسان کی طبعی فطری اور بنیادی ضرورت ہے کوئی وجہ نہیں کہ اسلام جو ایک فطری دین ہے اس سلسلے میں اپنے ماننے والوں کی رہنمائی نہ فرمائے ، انسانی نسل اور زندگی کو قائم رکھنے کے لئے نکاح چونکہ ایک لابدی چیز ہے اس لئے شریعت اسلا میہ نے اسے کماحقہ اہمیت دی ہے ۔
نکاح اور نکاح سے متعلق احکامات قرآن اور حدیث میں بڑی تفصیل سے بیان ہوئے اور رحمتِ دو عالم ﷺ نے عورتوں کے جملہ حقوق کا تعین فرمایا اور کوئی شعبہ نہ چھوڑا لیکن متاخرین فقہاء کی چند کتابوں میں جہیز کے سلسلے میں کچھ جزوی احکامات ملتے ہیں ورنہ قرآن مجید میں ، کتب احادیث میں ، فقہا متقدین کی کتابوں میں کہیں مروجہ جہیز کا وجود نہیں ملتا۔
صحاح ستہ اور ائمہ اربعہ کی امہات الکتب میں کہیں باب الجہیز کے عنوان