ایڈوکیٹ حضرات علماء کرام کی رہنمائی میں کام کریں تو میں سمجھتا ہوں اس میں دونوں (میاں بیوی) کا بھلا ہوگا۔اور اس طلاق سے کئی معصوم بچیوں کی تباہ وبربادی سے بچ جائیں گے ۔ میں نے ہماری قوم کی ایک بڑی کمزوری یہ بھی دیکھی ہے کہ بعض لوگ غیر مسلم ایڈوکیٹ سے طلاق نامہ روانہ کرتے ہیں اور اس میں مضمون ایسا ہوتا ہے کہ گویا وہ طلاق نامہ بھی ہے اور خلع نامہ بھی ۔ان لوگوں کو ہر طرح سے صرف اپنے موکل کو بچانے کی فکر رہتی ہے اور مقدمہ کو طول دے کر آمدنی کی فکر میں لگے رہتے ہیں ۔
اگر ایڈوکیٹ حضرات فریقین کو دارالقضاء روانہ کریں گے تویہ ان کے لیے موجب اجر بھی ہوگا اور فریقین کے درمیان شرعی طور پر فیصلہ بھی ہوسکے گا، اگر ایڈوکیٹ حضرات کو میری بات کڑوی نہ لگے تو ضرور راقم الحروف کے مشورے پر عمل کریں ، نیز دارالقضاء اور علماء کرام سے اپنا رابطہ رکھیں ، ورنہ آج کل کے ماحول میں کنواری لڑکیوں کا اٹھنا ہی مشکل ہے ، اگر شادی شدہ لڑکیاں مطلقہ کا لیبل لگا کر واپس آجائیں تو ان کے ماں باپ پر کیا گذرتی ہے ، اس حالت میں غریب لڑکیاں اقدامِ خود کشی کرلیتی ہیں ،بلکہ اسی طرح بہت ساری لڑکیاں بے موت مربھی چکی ہیں ۔
مطبوعہ روزنامہ سالار 22/07/2001