کہاں عورتوں کو ملازمتیں دی جارہی ہیں ، جس سے پاک دامنی تار تار ہورہی ہے ۔اور نتیجہ یہ کہ میاں بیوی کے درمیان کھٹ پٹ ہوجاتی ہے ۔ اور تنگ آکر میاں صاحب اپنے اختیار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تین تیر چلا بیٹھتے ہیں اور جب انہیں اس کا حکم معلوم ہوتا ہے تو فوراً روتے دھوتے ہوئے دارالقضا ء کی طرف راہِ اختیار فرار کرتے ہیں ، آخر کار وہی ہوتا ہے جو قطعاً نہ ہونا تھااور جس پر خدائے تعالیٰ کا غیض وغضب نازل ہوتا ہے ۔
غرض معلوم ہوا کہ عورت کے باہر نکلنے سے ہی یہ نوبت آئی ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ عورتیں فطری طور پر سست ہوتی ہیں ، پھر کام بھی کم کرتی ہیں ، حکومت انہیں اتنی تنخواہ دے کر کیوں رکھتی ہے خدا جانے ؟ ان کے بجائے کسی نوجوان مرد کو ملازمت پر رکھے تو وہ بے چارہ اپنے بیوی بچوں کے لیے پوری دلچسپی اور محنت کے ساتھ کام کرے گا ۔
لہٰذا حکومتِ ہند سے عموماً اور حکومتِ کرناٹک سے خصوصاً میری گذار ش ہے کہ کسی بھی ادارے میں خواہ وہ سرکاری ہو یا غیر سرکاری ، عورت کو ملازت نہ دی جائے ، ان کے لیے گھر کے اندر کے کام ہی بہت ہیں ۔ اس کے بعد دیکھیں کام کتنے جلد ہوں گے اور کسی قسم کی بد نظمی بھی نہیں ہوگی۔ امید کہ حکومت ان باتوں پر غور کرے گی۔