ایک نئے دین کے داعی کی بڑھتی ہوئی طاقت اور روز افزوں شہرت ومقبولیت کو پڑوسی ملک کے عیسائی تشویش کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے ، بلکہ اس قوت کو تلوار کے زور سے کچل دینے کی تیاریاں بھی شروع کرچکے تھے ۔ اس طرح سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کی صف میں ایک نئی اور انتہائی منظم وطاقتور شہنشاہیت کا مزید اضافہ ہوا۔ جس سے برسرِ پیکار ہونے کے لیے آ پ کو مجبور ہونا پڑا ۔ یہ چوتھا دفاعی محاذتھا اور اس کے خطرات کا سد باب کرنے کے لیے بھی آپ کو سیاسی اور جنگی بصیرت استعمال کرنی ضروری تھی ، ادھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو خط کسریٰ فارس کے نام گیا تھا ، اس پر کسریٰ اس قدر بر افروختہ ہوا کہ عرب میں اپنے گورنر کو لکھا کہ (نعوذ باللہ) حضور اکرم کو گرفتار کرکے پابجولاں دربار میں لایا جائے ۔ ا س کا نتیجہ یہ بھی ہوا کہ ایرانی آتش پرستوں کے عرب حلیف بھی حضور اقد س صلی اللہ علیہ وسلم کی جاں کے در پے ہوگئے۔
غرض مدینہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی بحیثیت داعی اسلام جتنی کامیابیوں سے ہم کنار ہوئی ، اتنی ہی ذمہ داریوں ، بے شمار خطرات اور بے شمار سنگین آزمائشوں سے پر نظر آتی ہے ۔ اس میں ایک لمحہ بھی چین اور اطمینان کا نظر نہیں آتا ۔ مگر اس کے باوجود سرکارِ دو عالم تاجدارِ مدینہ رحمۃ للعالمین شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر عمل ، ہر تدبیر ، ہر سیاست اور ہر حکمت عملی انتہائی باوقار اور سکون کے ساتھ روبکار ہوئی۔
یہ بے مثال شجاعت اور بے نظیر متانت صرف پیغمبر اعظم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی نظر آسکتی ہے اور ایک نبی کو ہی حق تعالیٰ ایسی منفرد خصوصیا ت سے نوازتا ہے ۔
(مطبوعہ روزنامہ سیاست ، میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم نمبر ، مورخہ ۱۵مئی ۲۰۰۳ء)