ہوئی ہے جس کا لشکر ہر جگہ فتوحات حاصل کررہا ہے، پڑائو کی خبر ملی تو آس پاس کے دیہاتی بچے لشکر دیکھنے جمع ہوگئے ،ادھر نماز کا وقت آیا ادھرموذن نے بآواز بلند اذان دینی شروع کی ، ان بچوں نے کبھی اذان سنی نہ ہوگی اب کی بار اذان سنی تو اس نئی حرکت کو دیکھ کر ان بچوں کو بھی شرارت سوجھی اورموذن کے اللہ اکبر کہنے پر سارے بچے بھی اللہ اکبر اللہ اکبر کہنے لگے۔
بچے کی ذ ہنی ساخت ایسی ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو بڑوں کی نگاہ میں اونچا بتانے کے لئے بڑوں کی نقل اتارا کرتا ہے آپ نے دیکھا ہوگا کہ عموماًمغرب کی نماز میں امام صاحب سورہ فاتحہ کے ساتھ چھوٹے چھوٹے سورہ پڑھتے ہیں تو جب بچوں کو وہ سورے یاد ہوتے ہیں تو وہ امام سے آگے آگے پڑھنے لگتے ہیں ابھی امام نے قل ہو اللہ احد کہا کہ پیچھے سے بچے کی آواز آتی ہے اللہ الصمد گویا بچہ یہ بتانا چاہتا ہے کہ مجھے بھی یہ سورہ یاد ہے اور کبھی یوں ہوتا ہے کہ ادھر امام نے کہا اللہ اکبر ادھر پیچھے سے کسی بچے کی آوازِبلند گونجتی ہے اللہ اکبر۔
بہر حال رسول اکرمﷺ کے مو ذن نے باآوازِ بلند اذان دینی شروع کی تو ان بچوں نے بھی اس کی نقل اتارنی شروع کی۔ سارے بچے ملکر اذان کہیں گے وہ بھی باآوازِ بلند تو ظاہر ہے کہ شور ہوگا ہی ۔رسول اکرم ﷺ نے جب شورکی آواز سنی تو خیمے سے باہر تشریف لائے اور دریافت فرمایا یہ شور کیسا؟ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ !مو ذن اذان دے رہا ہے اور بچے اس کی نقل اتار رہے ہیں حضور اکرم نے فرمایا ’’انہیں پکڑ لائو ‘‘ ۔صحابہ پکڑنے کے لئے دوڑے تو بچے بھاگ گئے۔ ابو محذورہ ایک بچے تھے …بچے کیا… بچپن کی حدود کو پارکرکے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکے تھے انہیں غیرت آئی کہ بھلا میں بھاگ جائوں ! ٹھہر کر دیکھیں کیا ہوتا ہے… چنانچہ یہ یونہی کھڑے رہے، صحابہ نے انہیں دھر لیا اور حضور اکرمﷺ کی خدمت میں پیش کردیا آپ نے فرمایا’’ تم کیا