اتنی مہر مقرر کرلیا گیا جوکہ ان صاحب کی مالی استطاعت سے بہت زیادہ تھا اور اب شوہر صاحب کویہ مضمون کو پڑھ کر یا کسی عالم صاحب کا بیان سن کر مہر ادا کرنے کی فکر لگ گئی ہے،
(۱) بیوی کو ہر ماہ کچھ رقم دے کر بتادیا جائے کہ میں قسطوں میں آپ کا مہر ادا کروں گا۔
(۲)جو جیب خرچی آپ بیوی کو دیتے ہیں اس میں مہر ادا کرنے کی نیت کر لی جائے اور بیوی کو بھی بتا دیا جائے ۔
(۳) کسی خوشی کے موقع پر یااسلامی تہوار کے موقع پرکوئی قیمتی ہدیہ جو آپ اپنی بیوی کو دیتے ہیں اس میں مہر ادا کرنے کی نیت کرلیں اور بیوی کو بھی بتا دیا جائے۔
آج کل دو لہے والے یہ سمجھتے ہیں کہ نکاح نامہ میں جس طرح وکیل اور گواہ کا کالم ہوتا ہے اسی طرح مہر کابھی ایک کالم ہے جس کو صرف پر کرنا مقصد ہے سمجھتے ہیں ،یا نہیں تو شاید دولہا یہ سمجھتا ہے کہ اس کے ادا کرنے کی ذمہ داری وکیل یا گواہوں کے ذمہ ہے یہ ایک غلط فہمی ہے اسی طرح شوہر مختصر مہر ہی نکاح نامے میں درج کراتا ہے مگر ادا نہیں کرتاحالانکہ مہر ادا کئے بغیرہزاروں کے زیورات لاکھوں کے زمینات بیوی کو دیتا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ بیوی سے کہہ دے کہ یہ تمہارے مہر کے بدلے زمین ہو یا یا زیور یا رقم ادا کردیں ورنہ اخیر میں بڑی بی کے ذریعہ مہر بخشوانے کی نوبت آئے گی۔
مہر کی رقم جتنی بھی کیوں نہ ہو آج کل ایک فیشن عام ہو گیا ہے کہ مہر کی رقم کے ساتھ اخیر میں 786(سات سو چھیاسی روپیہ) لکھتے ہیں ۔اس عدد کے تعلق سے نہ تو قرآن میں ہے نہ ہی حدیث میں ہے اور نہ ہی اس کے متعلق ہم نے علماء سے سنا ہے۔
دعاء ہے کہ اللہ تعالیٰ ٰہم سب کو اللہ تعالی کے احکامات پر حضور پر نور ﷺ کے طریقے پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے(آمین)