ناپسندیدہ ہے بلکہ واقعہ یہ ہے کہ اس سے کم یا زیادہ مہر مقرر کرنے میں بھی شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔
ہاں یہ اصول مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ مہر اتنا ہو جس سے بیوی کا اعزاز واکرام بھی ہو اور شوہر کی استطاعت سے باہر بھی نا ہو؛ جن بزرگوں نے بہت زیادہ مہر باندھنے سے منع کیا ان کا مقصد یہی تھا کہ استطاعت سے زیادہ مہر مقرر کر لیا جائے تو وہ محض ایک کاغذی کاروائی ہوکر رہ جاتی ہے ،حقیقت میں اسے دینے کی کبھی نوبت ہی نہیں آتی اور مہر ادا نا کرنے کا گناہ شوہر کی گردن پر رہ جاتا ہے ۔
دوسرے بعض اوقات بہت زیادہ مہر مقرر کرنے کے پیچھے دکھاوے کا جذبہ بھی کار فرما ہوتا ہے اور لوگ محض اپنی شان وشوکت کے اظہار کے لئے غیر معمولی مہر کر لیتے ہیں ظاہر ہے کے یہ دونوں باتیں اسلام کے مزاج کے خلاف ہیں اس لئے متعدد بزرگوں نے غیر معمولی مہر مقرر کرنے سے منع فرمایا ہے لیکن اس سلسلے میں حضرت عمر کا ایک واقعہ یاد رکھنے کے لائق ہے
حضرت عمر نے اپنے خلافت کے زمانے میں ایک مرتبہ تقریر کے دوران لوگوں سے کہا کہ وہ نکاح میں بہت زیادہ مہر نہ باندھا کریں ؛ اس پر ایک خاتون نے اعتراض کیا کہ قران کریم نے ایک جگہ مہر کے لئے قنطار سونے چاندی کا ڈھیر کا لفظاستعمال کیا ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ چاندی کا ڈھیر بھی ہو سکتا ہے پھر بھی آپ زیادہ مہر مقرر کرنے سے کیوں روکتے ہیں ؟حضرت عمر نے خاتون کی بات سن کر فرمایا کہ واقعی خاتون کا استدلال درست ہے اور زیادہ مہر باندھنے سے کلی طور پر منع کرنا درست نہیں ۔
مطلب یہ تھا کہ اگر دکھاوا مقصود نا ہو اور ادائیگی کی نیت بھی ہو اور استطاعت بھی