مقدار کا طلب یہ نہیں ہے کہ اتنا مہر رکھنا شرعاً پسندیدہ ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس سے کم مہر پر اگر عورت خود بھی راضی ہوجائے تو شریعت راضی نہیں ہے کیونکہ اس سے مہر کا مقصد یعنی عورت کااعزاز واکرام پورا نہیں ہوتا یہ کم سے کم حد بھی ان لوگوں کا خیال کرکے رکھی گئی ہے جو مالی اعتبار سے کمزور ہیں اور زیادہ رقم خرچ کرنے کے متحمل نہیں ان کے لئے یہ گنجائش پیدا کردی گئی ہے کہ اگر عورت راضی ہو توکم از کم اس مقدار پر نکاح ہو سکتا ہے۔
لیکن اس کا یہ مطلب لینا کسی طرح در ست نہیں ہے کہ شریعت کو منظور ہی یہ ہے کہ مہر کی مقدار دس درہم رکھی جائے اور اس سے اسے اس معنی میں مہر شرعی قرار دیا جائے۔
گویا شریعت نے مہر کی جو کم سے کم مقدار مقرر کی تھی اس کا مطلب یہ سمجھ لیاکہ شرعاً پسندیدہ ہی یہ ہے کہ اس سے زیادہ مہر مقرر نہ کیا جائے حالانکہ یہ تصور قطعی طور پربے بنیاد ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ خود آپ ﷺ نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ زہرہ کا مہر پانچ سو درہم مقرر فرمایا تھا جو ایک سو اکیس تولہ تین ماشہ چاندی کے برابر ہوتا ہے ، خود آپ ﷺ نے اپنی متعدد ازواج مطہرات کا مہر بھی اس کے قریب قریب ہی مقرر فرمایا جو اوسط درجے کے لحاظ سے ایک قابلِ لحاظ مقدار ہے۔ بعض حضرات اس مہرِ فاطمی ہی کو مہرِ شرعی کے الفاظ سے تعبیر کرتے ہیں اور غا لباً اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ شرعی اعتبار سے اس سے کم یا زیادہ مقرر کرنا پسندیدہ نہیں ہے یہ تصوربھی صحیح نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر فریقین مہرفاطمی کے برابر مہر مقرر کریں اور نیت یہ ہو کہ آنحضرت ﷺ کی مقرر کی ہوئی مقدار بابرکت اور معتدل ہوگی نیز یہ کہ اس سے اتباع سنت کا اجر ملنے کی توقع ہے تویقینا یہ جذبہ بہت مبارک اور مستحسن ہے؛ لیکن یہ سمجھنا درست نہیں ہے کہ یہ مقدار اس معنی میں مہر شرعی ہے کہ اس سے کم یا زیادہ مقرر کرنا شرعاً