ان کے قبضے میں آجاتا ہے اور وہ لڑکی کے وارثوں کو کچھ نہیں دیتے اور اگر اس کا انتقال میکے میں ہو تو وہ قابض ہو کر بیٹھ جاتے ہیں اور شوہر کا حق دینے کی ضرورت نہیں سمجھتے ۔ حالانکہ مردے کے مال پر ناجائز قبضہ جمالینا بڑی گری ہوئی بات بھی ہے۔ اور ناجائز مال ہمیشہ نحوست اور بے برکتی کاسبب بنتاہے بلکہ بعض اوقات دوسرے مال کو بھی ساتھ لے ڈوبتا ہے۔ اللہ تعالیٰ عقل اور ایمان نصیب فرمائے اور جاہلیت کے غلط رسوم ورواج سے محفوظ رکھے ۔
مہر کے متعلق احادیث میں کئی تفصیلات آئے ہیں مثلاً:
حضرت ابو سلمہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سے دریافت کیا کہ آنحضرت ﷺ کا مہر (اپنی ازواج مطہرات کے لئے )کتنا تھا ؟ فرمایا ساڑھے بارہ اوقیہ اور یہ پانچ سو درہم ہوتے ہیں ۔ (صحیح مسلم ، مشکوٰۃ ص ۳۷۷)
حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے کہ دیکھو عورتوں کے مہر زیادہ نہ بڑھایا کرو کیونکہ یہ اگر دنیا میں عزت کا موجب اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک تقوے کی چیز ہوتی تو نبی کریم ﷺ تم سے زیادہ اس کے مستحق تھے ۔مجھے علم نہیں کہ آنحضرت ﷺنے اپنی ازواج مطہرات میں سے کسی سے بارہ اوقیہ سے زیادہ پر نکاح کیا ہویا اپنی صاحبزادیوں میں سے کسی کا نکاح اس سے زیادہ مہر پر کیا ہو (مشکوٰۃ ص۲۷۷ )
مہر دراصل ایک اعزازیہ (Honoraium) ہے ایک شوہر اپنی بیوی کو پیش کرتا ہے اور اس کا مقصد عورت کا اعزاز واکرام ہے نہ تو یہ عورت کی قیمت ہے جسے ادا کر کے یہ سمجھا جائے کے شوہر کے ہاتھوں بک گئی اور اب اس کی حیثیت ایک کنیز باندی کی ہے اور نہ یہ محض ایک فرضی کاروائی ہے جس کے بارے میں یہ سمجھا جائے کہ اسے عملًا ادا کرنے کی ضرورت نہیں ۔ شوہر کے ذمہ بیوی کا مہر لازم کرنے سے شریعت کا منشاء یہ ہے کہ