(۲)ایک زبردست کوتاہی یہ ہوتی ہے کہ مہر ادا کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی بلکہ رواج یہی بن گیا ہے کہ بیویاں حق مہر معاف کردیا کرتی ہیں ۔ یہ مسئلہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ بیوی کا مہر بھی شوہر کے ذمہ اسی طرح کا ایک قرض ہے جس طرح دوسرے قرض واجب الاداء ہوتے ہیں یوں تواگر بیوی کل مہر یا اس کا کچھ حصہ شوہر کو معاف کردے تو صحیح ہے لیکن شروع ہی سے اس کو واجب الادا نہ سمجھنا بڑی غلطی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ جو شخص نکاح کرے اور مہر ادا نہ کرنے کی نیت رکھتا ہووہ زانی ہے ۔
(۳) ہمارے معاشرے میں جو اور بہت سی خرابیاں پیدا ہوگئی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ عورتوں کے لئے مہر لینا بھی عیب سمجھا جاتا ہے اور میراث کا حصہ لینا بھی معیوب سمجھا جاتاہے اس لئے وہ مجبوراً معاف کردینا ہی ضروری سمجھتی ہیں ۔ دیندارطبقے کا فرض ہے کہ اس معاشرتی برائی کو مٹائیں اور لڑکیوں کو مہر بھی دلوائیں اور میراث کا حصہ بھی دلوائیں اگر وہ معاف کرنا چاہیں تو ان سے کہہ دیا جائے کہ وہ اپنا حق وصول کرلیں اور کچھ عرصہ تک اپنے تصرف میں رکھنے کے بعد اگر چاہیں تو واپس لوٹا دیں اس سلسلے میں ان پر قطعاً جبر نہ کیا جائے ۔
(۴) مہر کے بارے میں ایک کوتاہی یہ ہوتی ہے کہ اگر بیوی مرجائے اور اس کا مہر ادا نہ کیاگیا ہوتو اس کو ہضم کرجاتے ہیں ، حالانکہ شرعی مسئلہ یہ ہے کہ اگر خانہ آبادی سے میاں بیوی کی یکجائی سے پہلے بیوی کا انتقال ہوجائے تو نصف مہر واجب ہو گااور اگر میاں بیوی کی خلوت ِ صحیحہ کے بعد اس کا انتقال ہوا ہو تو پورا مہر ادا کرنا واجب ہوگااور یہ مہر بھی اس کے ترکے میں شامل ہوکر اس کے شرعی ورثہ پر تقسیم ہوگا۔
بعض مقامات پر ایسا ہوتا ہے کہ اگر لڑکی کا انتقال سسرال میں ہو تواس کا سارا اثاثہ