ہے بلکہ اس سے بڑھ کر بعض موقعوں پر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اسی جھگڑے میں شادی رک جاتی ہے لوگ زیادہ مہر مقرر کرنے کو فخر کی چیز سمجھتے ہیں لیکن یہ جاہلیت کا فخر ہے، جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، ورنہ اگر مہر کا زیادہ ہونا شرف وسیادت کی بات ہوتی تو حضور پاک ﷺ کی ازواج مطہرات اور آپ ﷺ کی صاحبزادیوں کا زیادہ مہر ہوتا، حالانکہ آپ ﷺ نے اپنی کسی بیوی کااور کسی صاحبزادی کا مہر پانچ سو درہم سے زیادہ مقرر نہیں کیا ۔ پانچ سو درہم کی ایک سو اکتیس تولے تین ماشے چاندی بنتی ہے، اگر چاندی کا بھاؤ پچاس روپیہ تولہ ہو تو پانچ سو درہم یعنی ایک سو اکتیس تولے چاندی کے چھ ہزار پانچ سو تریسٹھ روپئے بنتے ہیں ۔ (قیمت کی کمی بیشی کے مطابق اس مقدار میں کمی بیشی ہوسکتی ہے،بہرحال ایک سو اکتیس تولے چاندی کا حساب رکھنا چاہئے) اسی کو مہر فاطمی کہا جاتا ہے۔ بعض اکابر کا معمول رہا ہے کہ اگر ان سے نکاح پڑھانے کی فرمائش کی جائے تو فرماتے ہیں کہ اگر مہر فاطمی رکھو تو نکاح پڑھائیں گے ورنہ کسی اور سے پڑھوالو۔
الغرض مسلمانوں کے لئے آنحضرت ﷺ کا اسوۂ حسنہ ہی لائق فخر ہونا چاہئے اور مہر کی مقدار اتنی رکھنی چاہئے جتنی آپ ﷺ نے اپنے مقدس ازواج مطہرات اور پیاری صاحب زادیوں کے لئے رکھی۔ آپ ﷺ سے بڑھ کر کس کی عزت ہے؟ گو اس سے زیادہ مہر رکھنے میں بھی کوئی گناہ نہیں ، لیکن زیادتی کو فخر کی چیز سمجھنا اس پر جھگڑے کھڑے کرنااور باہمی رنجش کی بنیاد بنالینا جاہلیت کے جراثیم ہیں ، جن سے مسلمانوں کوبچنا چاہئے۔
امام ابوحنیفہ ؒ کے نزدیک مہرکی کم سے کم مقدار دس درہم یعنی بیس تولے ساڑھے سات ماشے چاندی ہے۔ جس کے آج کے حساب سے تقریباً دوسو روپئے بنتے ہیں اور اس سے کم مہر مقرر کرناصحیح نہیں ۔ اور اگر کسی نے اس سے کم مقرر کرلیا تو دس درہم کی مالیت مہر واجب ہوگا۔