اسی کو حضرت حکیم الملّت حضرت امیر شریعت قبلہ دامت برکاتہم فرماتے ہیں کہ مسلمان ایک دوسرے سے مختلف تو ہوسکتے ہیں ، ایک دوسرے کے مخالف نہیں ہوسکتے‘‘۔ایک موقع پر یہ آپ نے یہ بھی فرمایا ’’ اتحاد کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سب اپنے اپنے نظریے اور خیالات چھوڑ کر ایک ہی رائے پر متفق ہوجائیں ، بلکہ ہر فرقہ اپنے اپنے خیالات پر ثابت قدم رہتے ہوئے ملّی مسائل میں اتحاد ، وحدت اور محبت کا مظاہرہ کرے ۔ اور یہ بھی فرمایا کہ ’’ مکتبِ فکر کو مکتبِ ذکر نہ بنائیں ‘‘
امت کو فروعی مسائل کے نزاعات سے نکالنے کا واحدراستہ یہی ہے کہ اس کے حقیقی منصب پر امت کو گامزن کیا جائے اور بتایا جائے کہ فرضِ منصبی دعوت الی اللہ ہے ، جب ملتِ اسلامیہ نے اپنے اصلی عہدے سے غفلت برتی تو اس کو شیطان نے داخلی کش مکش اور جزئی اختلافات میں الجھا کے رکھ دیا۔ امت کو ایک شاہ راہ پر لانے والی واحد شئے اقامتِ دین اسلام اور اعلاء کلمۃ اللہ ہے ۔ اسی کو قرآن مجید میں فرمایا شَرَعَ لَکُمْ مِنَ الدِّیْنَ مَا َوصَّی بِہِ نُوْحاً وَّالَّذِیْنَ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہِ اِبْرَاھِیْم وَمُوسی وَعِیْسٰی اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلاَ تَتَفَرَّقُوا فِیْہِ (الشوریٰ ، ۱۳) ترجمہ: اللہ نے تم لوگوں کے واسطے وہی دین مقرر کیا جس کا اس نے نوح علیہ السلام کو حکم دیا تھا ، اور جس کو ہم نے آپ کے پاس وحی کے ذریعے بھیجا ہے ۔ اور جس کا ہم نے ابراہیم اور موسیٰ علیہما السلام کو حکم دیا تھا وہ یہ ہے کہ اس دین کو قائم رکھو اور اس میں تفرقہ نہ ڈالو، اس سے مراد دین کے اصول اور ضوابط ہیں ۔ جو تمام آسمانی شریعتوں اور انبیاء علیہم السلام کے صحیفوں میں مشترک ہیں ۔ اس دین کو پھیلانا اور اس کی دعوت دینا چاہیے ۔ مگر اس میں اختلاف اور تفریق کا شکار ہونا یہ حکمِ خداوندی کی خلاف ورزی ہے ۔
اس آیت کی تفسیر میں حضرت مولانا بدر عالم میرٹھی مہاجر مدنی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے