ہیں کہ پس جس طرح شرائع سماویہ اور صحفِ انبیاء علیہم السلام فروعی اختلافات کے باوجود ایک ہی دین کہلائے ، ایک کا مصدق دوسرے کا مصدق رہا، ان کے ماننے والے سب ایک رشتۂ اتحاد واخوت میں منسلک رہے ، تحزب وتعصب اور بغض وعناد کی کوئی شان ان میں پیدا نہیں ہوئی۔ اور اسی لیے وہ ’’کانوا شیعا ‘‘ کی حد (تعریف )میں نہیں آئے ،اسی طرح ایک دین حنیف کے اندر فروعی اختلافات ، اس کی شانِ اجتماع ووحدت میں خلل انداز نہیں ہوتے‘‘۔
اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَۃَ شِبْرًا فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَۃَ الاِسْلامِ مِنْ عُنْقِہِ (رواہ احمد وابوداؤد) جس شخص نے جماعت مسلمین سے ایک بالشت بھی جدائی اختیار کی ، اس نے اسلام کا حلقۂ عقیدت اپنی گردن سے نکال دیا۔ اور ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ شیطان انسانوں کے لیے بھیڑیا ہے ، جیسے بکریوں کے گلے کے پیچھے بھیڑیا لگتا ہے تو وہ اسی بکری کو پکڑ تا ہے جو اپنے گلے سے پیچھے یا ادھر ادھر رہ جائے اس لیے تمہیں چاہیے کہ جماعت کے ساتھ رہو ، علاحدہ نہ رہو ۔
نیز بڑے بڑے اختلافات کی بنیاد عموماً بدگمانی ہوتی ہے ، جب کہ بد گمانی صاف قرآن وحدیث کی روشنی میں حرام ہے ۔ اسی سلسلے میں حضرت مولانا شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ کا ایک ملفوظ حکیم اختر صاحب دامت برکاتہم نقل فرماتے ہیں کہ ہر بد گمانی پر قیامت کے دن مقدمہ چلے گا اور اس پر دلیل شرعی کا مواخذہ ہوگا ، اور حسنِ ظن پر بدونِ دلیل اجر عطا فرمایا جائے گا۔ پس نہایت حماقت اور نادانی ہے کہ بدونِ دلیل مفت ثواب حاصل نہ کرے ، اور بد گمانی پر دلیل کے مواخذہ میں خود کو گرفتار کرادے ۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر