اس زمانے کے متدین علماء میں اب بھی ملتے ہیں ۔اس لیے اختلافِ رائے مذموم چیز نہیں ، بلکہ اختلافِ رائے میں فساد اور بگاڑ کی جڑ باہمی نزاع اور جنگ کی صورت پیدا ہوجانا خواہ عوام کی طرف سے ہو یا علماء کی جانب سے۔
حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی دو وجوہات بیان فرمائی ہیں ۔ ایک وجہ بعض علماء کی طرف سے ، دوسری اکثر عوام کی جانب سے ۔ علماء کی جانب سے یہ ہے کہ وہ اپنے جزئی اختلافِ رائے کو علماء تک ہی محدود نہیں رکھتے ، بعض تو اس کی سعی کرتے ہیں کہ عوام کی اعانت ونصرت ان کے ساتھ ہو، اور ان کی مدد سے وہ دوسرے اہل حق کی توہین وتذلیل کریں ۔ حالانکہ بہتر یہ تھا کہ وہ جس چیز کو حق سمجھتے ہیں اس کو ظاہر کردیں اور اس کی پرواہ نہ کریں کہ ان کے قول پر کوئی عمل کرتا ہے یا نہیں ۔ کسی کے عمل نہ کرنے سے اہل حق کی حقانیت میں کوئی فرق نہیں آتا، بالخصوص ایسی حالت میں کہ عوام ان اختلافات کو سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ تو ایسی حالت میں ان پر ان چیزوں کا یا اظہار نہ ہوتا یا جہاں علماء کا مجمع ہوتا وہاں ظاہر کی جاتیں ۔ یا اگر بضرورتِ تبلیغ اور بخوفِ کتمانِ علم اظہار کیا جاتا تو جب عوام کے عقول ان کے سمجھنے سے قاصر ہیں تو ان پر اس کا زور نہ دیا جاتا کہ وہ خواہ مخواہ ان کے ہم نوا بنیں ۔ دوسری وجہ جو پہلی وجہ سے بھی زیادہ سخت ہے ، یہ ہے کہ عوام نے مسائل میں رائے زنی کو خواہ مخواہ اپنا مشغلہ بنالیا۔ تو ان کو اہلِ علم کے اختلاف میں حکم بننے کی کیا ضرورت ہے کہ ان کے علمی ابحاث ، ان کے علمی دلائل، سمجھنے کی اہلیت نہیں ، لیکن اس میں محاکمہ اور فیصلے یہ حضرات (عوام)فرمانے لگیں ۔حالانکہ ان کا کام یہ تھا کہ علمائے حق میں سے جس کے ساتھ حسنِ عقیدت ہو ، تجربے سے اس کا دیندار ، تجربہ کاراور اللہ والا ہونا ثابت ہوچکا ہو ، اس کا اتباع کرتے ، لیکن یہ تو جب ہوتا جب عمل مقصود ہوتا۔ یہاں مقصود ہی نزاع ہے ۔ (الاعتدال )