عداوتیں ممنوع اورمحرمات میں سے ہے کیو نکہ اختلاف رائے کے باوجود صحابہ ؓکے باہمی اخوت اور مودت کی بے شمار مثالیں اورواقعات ہیں لہذا اگر باہم اختلاف رائے ہوجائے تو ہمارے لئے صحابہ کرام ؓ کااسوہ ہمارے لئے موجود ہے ان کی اتباع میں ہمارے لئے نجات اور سرخ روئی ہے ۔
غیرمنصوص مسائل میں نظری اور فکری اختلاف ایک فطری اورطبعی چیزہے ، جس طرح کائنات کی ہر شئے میں تنوع ہے ، اسی طرح انسانوں کی ذہنی سطح اور اندازِ فکر میں بھی تنوع ہے ، اس لیے نظری مسائل میں آراء کا اختلاف نہ مضر ہے اور نہ مہلک ، بلکہ یہ اختلافِ رائے وحدتِ اسلامی کے منافی بھی نہیں ۔ کیونکہ جہاں عقل مند لوگ اور دیانت دار لوگ جمع ہوتے ہیں ۔ وہاں اختلافِ رائے ضرور ہوگا، اسی لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین بھی اختلافِ رائے تھا، جیسے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے درمیان بعض مسائل میں اختلافِ رائے تھا ، لیکن آپسی احترام اور خلوص ومحبت ایسی بے مثال تھی کہ ایک مرتبہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سوار ہوکر کہیں جارہے تھے ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر رکاب تھام لیا اور ان کی سواری کے ساتھ چلنے لگے ، یہ دیکھ کر حضرتِ زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’ ’ اے رسول کے چچا زاد بھائی! رکاب چھوڑیے ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا جواب یہ ہوتا ہے کہ ہمارے لیے یہی حکم ہے ہم اپنے علماء اور بزرگوں کے ساتھ اسی طرح پیش آئیں ۔ یہ سب کر حضرتِ زید ابن ثابت نے فرمایا ’’ اے ابنِ عمِ رسول، ذرا اپنا ہاتھ بڑھائیے ‘‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ بڑھایا تو زید نے فرطِ محبت میں اس کو چوم لیااور فرمانے لگے ، ہمارے لیے یہی حکم ہے کہ آلِ رسول کے ساتھ اسی طرح پیش آئیں ۔
اختلافِ رائے کے باوجود آپسی محبت اور احترام کے ایسے بے شمار واقعات صحابہ ، تابعین ، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین کے دور میں بھی ، ، ماضی قریب کے علماء میں نیز