بربادی ہو یاخلافت عثمانیہ کاخاتمہ ہو یاہندوستان کی آٹھ سوسالہ حکومت کازوال ۔الغرض عالم اسلام میں پیش آنے والی عظیم آفت کاتعلق اسی نزاع وانتشار سے ملتاہے ۔اورایک آیت میں اللہ تعالی افتراق واختلاف کرنے والوں کے لئے عذاب عظیم ہونے کی تنبیہ فرماتے ہیں ولاتکونواکالذین تفرقواواختلفوامن بعد ماجائہم البینات واولئک لہم عذاب عظیم (آل عمران ۱۰۵)اور تم ان لوگوں کی طرح مت بنو جنہوں نے واضح اورروشن دلائل پہنچنے کے بعدباہم تفریق کرلی اورباہم اختلاف کرلیا اوران لوگوں کے لئے بڑاعذاب ہے یعنی یہود ونصاری کی طرح نہ ہوجائو جنہوں نے محض نفسانی خواہشات کی اتباع کرکے اصول شرع کے صاف احکام پہنچنے کے بعد اسی میں متفرق ہوگئے باہمی جنگ وجدال کے شکار ہوگئے یہ آیت دراصل اس سے ماقبل کی آیت واعتصموا بحبل اللّٰہ جمیعا ولا تفرقوا کاتکملہ اورتتمہ ہے کہ جس طرح مسلمانوں کی اجتماعی اورملی فلاح وکامرانی دوچیزوں (تقوی اور اللہ کی کتاب کومضبوطی سے تھامنے )پر موقوف ہے ،اسی طرح اپنے اندر تفرق واختلاف سے احترازواجتناب کرنابھی لازمی اورضروری ہے کیونکہ تفرق وانتشار ہی نے گذشتہ قوموں کوتباہ وبرباد کردیا لہذاان سے عبرت حاصل کرو ان کی طرح نہ بنو ۔موجودہ دور میں جس قسم کے اختلاف سے ملت اسلامیہ کی گروہ بندی ہورہی ہے وہ محض دین (کے جزئی اورفروعی مسائل )ہی کے نام سے ہورہی ہے ،آج کے عہد میں مسلمانوں کی ساری کدوکاوش کاماحصل فروعی مسائل کااثبات یاتردید مقصودہوتی ہے ۔
اعتقادات اورایمانیات کے علاوہ جن جزئی مسائل میں آج ہم متفرق ومنتشر ہوگئے ہیں یہ جزئی مسائل میں اختلاف رائے صحابہ کرام ؓکے دور سے چلا آرہاہے لیکن حضرات صحابہؓ نے کبھی بھی اس اختلاف رائے کوبنیادبناکرآپس میں عداوتیں نفرتیں اوررنجشیں پیدانہیں کرلی تھیں ، مطلق اختلاف رائے مذموم شیٔ نہیں بلکہ باہمی مخالفتیں اور