کیاواقعتا ہمارے تعلقات اور رشتے اور محبتیں اس طرح ہیں ؟کیاہم نے اپنے قلوب کو کدورتوں سے اورسینوں کوکینوں سے پاک کرلیاہے ؟ہمارے اندراگر بغض ،عداوت حسداورنفرت ہے اورہم میں سے ایک آدمی دوسرے کی ٹانگ پکڑکر کھینچنے میں لگاہے اور یہ چاہتاہے کہ میں ہی سب پر حاوی اور غالب رہوں تو یہ جذبہ اور نیت مومنین کے اوصاف میں سے نہیں ۔
جنگ وجدال اورنفرت وعداوت کی مضرت پر تنبیہ کرتے ہوئے باری تعالی نے ارشاد فرمایا وَلاتَنَازَعُوا فَتَفْشَلُواوَتَذْھَبَ رِیْحُکُمْ وَاصْبِرُوا اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ۔ (الانفال ۴۶)اورآپس میں نہ جھگڑو پس نامرد ہوجائو گے (ترجمۂ شیخ الھندؒ)اورتمہاری ہوااکھڑجائے گی اورصبر کرو بے شک اللہ تعالی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔یعنی باہمی تنازع اور جدال سے تمہای خود اعتمادی ختم ہوجائے گی بزدلی پیداہوجائے گی تمہاری ھیبت اوردبدبہ ختم ہوجائے گا۔
امت مسلمہ اس وقت جس ذلت ونکبت اور ہمہ گیر انحطاط کی شکار ہے کوئی شخص اس کے سینکڑوں اسباب اوروجوہات شمارکرے لیکن اس سے تو کسی کو انکار کی مجال نہیں کہ اس کاایک اہم سبب باہمی رسہ کشی اور انتشارواختلاف ہے اسی کو صراحت سے فرمایا وَلاتَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوایعنی تم آپس میں نزاع وجدال مت کرو ورنہ تمہاراوقار، رعب اوردبدبہ یکسر ختم ہوجائے گااورتم اپنے مقاصداورعزائم میں ناکام ہوجائو گے۔قرآن حکیم کی اس تعبیر( ہواکے اکھڑجانے )میں اعلی درجے کی جامعیت ہے یہ کسی خاص شعبے یامیدان یا کسی خاص حصے میں خسارہ اورناکامی کی بات نہیں بلکہ زندگی کے ہرموڑپرنامرادی اورنقصان کی نشاندھی ہے ۔قرآن کی اس پیشین گوئی پر مسلمانوں کی ساڑھے چودہ سوسالہ تاریخ شاہد ہے کہ جہاں کہیں شکست وہزیمت کاسامناکرناپڑااس کی بنیادی وجہ باہمی انتشاروافتراق رہاہے چاہے بغداد میں تاتاریوں کی