جوآپس میں ایک دوسرے کے کام آنے والے ہوتے ہیں نیزہرمومن دوسرے مومن کاساتھی خادم فکرمند ہمدرداورخیرخواہ ہوتاہے جن صفات عالیہ اورخصال محمودہ کو اپنے اندر لانے سے مؤمنین کاملین کی جمعیت وجود پذیر ہوتی ہے وہ مفصل اور مکمل اس آیت والمومنون والمومنات بعضہم اولیاء بعض میں بیان کئے گئے ہیں اللہ تعالی کو صرف یہ پسند نہیں کہ ہرآدمی صرف عبادت گذار بن جائے اور اس کے اندر اخلاق حمیدہ نہ ہو ،اگر اللہ تعالی کو یہ پسند ہوتاتوامت محمدیہ علی صاحبھاالصلاۃوالتسلیم کی تخلیق کی ضرورت نہ ہوتی جس کے خصوصی اوصاف میں نماز،زکوۃ،اللہ تعالی کے احکام کوبجالانے اورمحبوب خدا ﷺکی اطاعت کرنے کے ساتھ ساتھ، ایک دوسرے کے ولی اور مددگار ہونے کوبھی ذکرکیاگیاہے ،اس لئے کہ سابقہ امتوں میں عبادت گذار راھب اور مرتاض عیسائی موجود تھے قرآن کریم میں ان کاذکر ہے قِسِّیْسِیْنَ وَرُھْبَانًا وَّاَنَّھُمْ لاَیَسْتَکْبِرُوْن (المائدۃ۸۳)محض اس طرح کے لوگ پیداکرنے تھے تومکی اور مدنی انقلاب برپاکرنے کی حاجت در پیش نہ ہوتی کہ جس انقلاب کے ذریعے خیر امت کووجود بخشا گیاپھر اس کے خاص اوصاف اورصفات میں جس صفت اوروصف کو ذکرکے اعتبار سے پہلا رتبہ درجہ اور مقام دیا گیا وہ بعضہم اولیاء بعضہے ،دوسرے اوصاف (نماز،زکوۃ، اطاعت احکام الہی،اتباع سنت رسول اللہ ﷺوغیرہ )کو بعد میں بیان فرمایا، اللہ تعالی اس صفت کو پہلے ذکر کرنے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ تعاون وتناصراور تحابب کا جذبہ ایمان اوراسلام کی بنیادوں میں سے ہے اور یہی جذبۂ دروں مسلمانوں میں عام کرناہے اسی کی تشریح رسول اللہ ﷺنے اس طرح فرمائی عن ابی ھریرۃؓ قال قال رسول اللہ ﷺلاَتَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ حَتَّی تُوْمِنُواوَلاتُوْمِنُواحَتَّی تَحَّابُّو ااَوَلَااَدُلُّکُمْ عَلٰی شَیْٔ اِذَافَعَلْتُمُوْہُ تَحَابَبْتُمْ