بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعاً وَّلاَ تَفَرَّقُوا ’’ اور اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوط پکڑے رہو، اور آپس میں نا اتفاقی مت کرو‘‘ یعنی اللہ کے دین کو مضبوطی سے تھام لو ، بایں طور کہ باہم سب متفق بھی رہو اور آپس میں انتشار وافتراق کی صورتیں پیدا مت کرو۔
ان دو آیتوں میں مسلمانوں کی اجتماعی قوت کو مضبوط اور نا قابل تسخیر بنانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے دو اہم اصول بیان فرمائے ہیں ۔ (۱) تقویٰ وطہارت (۲) اتحاد واتفاق معلوم ہوا کہ اتحاد واتفاق کی فضیلت واہمیت تقویٰ وطہار ت کے مساوی ہے ۔ خدا تعالیٰ نے حکیمانہ انداز میں پہلے اس نسخۂ اکسیر کا ذکر کیا جو انسانوں کو باہم مربوط اور جوڑے رکھنے کا بہترین اصول ہے یعنی تقویٰ وطہارت ، پھر آپس میں متفق ہونے اور انتشار وافتراق سے بچنے کا حکم فرمایا ہے ۔
اتحاد اور وحدت ایک ایسی شئے ہے جس کے مستحسن ہونے پر دنیا کے تمام انسان خواہ وہ کسی عہد اور کسی اقلیم کے ہوں ، کسی مذہب ومشرب اور مسلک کے ہوں ،سب کی رائے ایک ہے، اس میں دورائے ہونے کا امکان ہی نہیں ۔اسی لیے دنیا کی ہر جماعت اور ہر فردلوگوں کو ایک ہونے ہی کی دعوت دیتا ہے ، مگر حالاتِ حاضرہ پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اتحاد واتفاق کے مفیداور لازم ہونے کے باوجود ملتِ اسلامیہ فرقوں اور پارٹیوں میں منقسم ہے ۔ اس کی بنیاد اور وجہ کے بارے میں سوچا جائے تو اس کی واحد وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ ہر فرقہ اور ہرشخص لوگوں کواپنے خود ساختہ نظامِ عمل یا اپنے خود ساختہ نظریے پر متفق کرنا چاہتا ہے اور جب دوسرے لوگ اپنا بنایا ہوا کوئی نظام العمل یا اپنی رائے پیش کرتے ہیں تو یہ شخص اپنے نظریے پر ہٹ دھرمی کے ساتھ جم جاتا ہے اور دوسروں کے نظریات کا لحاظ اوراحترام نہیں کرتا۔ جس کالازمی نتیجہ یہ ہے کہ ایک ہی ملّت