ازواج میں سے جس کو آپ کی زیارت مقصود ہوتی وہیں چلی جاتی اور تھوڑی دیر بیٹھ کر واپس آجاتیں ، بغیر کسی شدید ضرورت کے آپ وہاں سے باہر تشریف نہ لے جاتے ۔ ایک مرتبہ آپ کو سر صاف کرانا مقصود تھا تو آپ نے سر مبارک کھڑکی سے باہر کردیا ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تشریف لائیں اور انہوں نے آپ کے سر کو مل کر صاف کردیا۔ (بخاری ومسلم)
جس عمل کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی پابندی فرمائی ، امت کے لیے روا نہیں کہ اس سے غفلت برتے ۔ اعتکاف کرنے والے کے متعلق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ معتکف تمام گناہوں سے محفوظ رہتا ہے اور وہ گناہوں سے روک دیا جاتا ہے اور اس کے لیے نیکیاں اس شخص کی طرح لکھی جاتی ہیں جیسے تمام نیکیاں کرنے والے کو لکھی جاتی ہیں ، (ابن ماجہ )
ایک دوسری روایت میں ہے کہ رمضان کے (آخری) دس دن کے اعتکاف کا ثواب دو حج اور دو عمروں کے برابر ہے ۔ (بیہقی) بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ معتکف کا سارا وقت سوتے جاگتے عبادت میں شمار ہوتا ہے اور اعتکاف کا ایک اہم مقصد شب قدر کی تلاش بھی ہے ۔ اسی طرح معتکف ہر حال میں شب قدر کی عظیم برکتوں اور رحمتوں سے مالا مال ہوگا۔
حافظ ابن قیم زاد المعاد میں فرماتے ہیں کہ اعتکاف کا مقصد اور اس کی روح دل کو اللہ پاک کی پاک ذات کے ساتھ وابستہ کرلینا ہے کہ سب طرف سے ہٹ کر اسی کے ساتھ مجتمع ہوجائے اور ساری مشغولیات کے بدلے میں اسی پاک ذات سے مشغول ہوجائے اور اس کے غیر کی طرف سے منقطع ہوکر اس طرح اس میں لگ جائے کہ خیالات وتفکرات سب کی جگہ اس کا پاک ذکر اور اس کی محبت سماجائے ۔ یہاں تک کہ مخلوق کے ساتھ انس ومحبت کے بدلے اللہ کے ساتھ محبت پیدا ہوجائے کہ یہ انس قبر کی وحشت میں اس دن کام دے ،