تاکید فرماتے تھے اور نہ کرنے والوں کے لئے سخت زجر و توبیخ بیان فرماتے تھے ۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مَنْ کَانَ لَہُ سَعَۃٌ وَلَمْ یُضَحِّ فَلا یَقْرِبَنَّ مُصَلَّانَا یعنی جس شخص کے پاس وسعت اور گنجائش ہو اس کے باوجود وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہمارے عیدگاہ کے قریب نہ آئے ۔ پوری امت محمدیہ علی صاحبہا الصلاۃ والتسلیم دین و شریعت کے ایک اہم حکم کو بجا لا رہی ہے اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی یادگار کو بنانے میں مصروف ہے تو انہی میں ایک شخص جسے خداتعالیٰ نے وسعتوں سے نوازا ہے اور وہ سہولت اور آسانی سے اس اہم سنت مبارکہ اور شعار اسلام میں حصہ لے سکتا ہے لیکن اس کے باوجود بے پرواہی برت رہا ہے تو اس کا کیا حق بنتا ہے کہ وہ سب مسلمانوں کے ساتھ مل کر عید منائے؟ اسی لئے تمام علماء کے نزدیک قربانی واجب ہے ۔ حضرت حکیم الامت تھانوی ؒاپنی مشہور کتاب اغلاط العوام میں تحریر فرماتے ہیں ’’ بہت سے لوگ باوجود وسعت کے قربانی نہیں کرتے خاص کر دیہات کے لوگ اس میں بہت غفلت کرتے ہیں حلانکہ حدیث شریف میں ہے جو صاحب وسعت قربانی نہ کرے وہ ہمارے عیدگاہ کے قریب نہ آئے اور یہ معلوم ہے کہ عید گاہ میں وہ لوگ جاتے ہیں جو مسلمان ہیں اور عید گاہ سے بے تعلقی اور بعد(دوری ) انہیں کوہے جو کافر ہیں ۔ اب غور کرناچاہئے کہ حدیث شریف میں قربانی نہ کرنے والوں کے لئے کس قدر تہدید اور وعید شدید ہے (اغلاط العوام ) ۔
شہروں میں اپنی مصروفیات کی بناء پر عموماً لوگوں کا یہ مزاج بنا ہوا ہے کہ قربانی کے لئے کسی ایک کو پیسے دیدیتے ہیں اور یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ وہ قربانی کے تمام فرائض انجام دے لے گا حالانکہ فقہاء کرام نے تحریر فرمایا ہے کہ اپنی قربانی کو خود اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا