رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قربانی کے دن اللہ تعالیٰ کو قربانی سے زیادہ کوئی اور عمل محبوب نہیں ۔ لسانِ نبوت کے اس اظہار کا تقاضہ تو یہی تھا کہ اس دن ساری امتِ محمدیہ اپنی طرف سے بھی اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بھی قربانی ادا کرے تاہم شریعت کی طرف سے اس میں امت کے لیے یہ سہولت رکھی گئی ہے کہ قربانی ہر شخص پر واجب نہیں ، صرف اسی شخص پر قربانی واجب ہے جو صاحب نصاب ہو، یعنی موجودہ موزونات کے حساب سے جس کے پاس چھ سو بارہ گرام چاندی یا اس کی قیمت یا اس کے بقدر ساز وسامان اپنی حاجاتِ اصلیہ سے زائد ہو۔ ہاں اگر کسی کم پیسے والے یعنی فقیر شخص نے بھی ایام قربانی (۱۰، ۱۱،۱۲ذی الحجہ ) میں کوئی جانور قربان کرنے کی نیت سے خرید لیا تو اب اس جانور کی قربانی واجب ہوجائے گی کہ یہ جانور بہر حال اللہ کے نام پر قربان ہونے کے لیے متعین ہوگیا ہے ۔اب اسے دوسرے مصرف میں صرف نہیں کیا جاسکتا۔
نیز احادیث میں یہ بھی ہے کہ جانور کے بدن پر جتنے بال ہوتے ہیں اتنی ہی نیکیاں قربانی کرنے والے کے نامہ اعمال میں لکھی جاتی ہیں ۔ اب ذرا سوچئے کہ اس دورِ جدید میں اور انٹرنیٹ ٹکنالوجی کے دور میں بھی کیا ایسی کوئی مشین دریافت ہوئی ہے جو ایک جانور کے مکمل بال (نہ ایک کم نہ ایک زیادہ) گن کر بتادے ۔ پس ارشادِ خداوندی کا ظاہری مفہوم یہی ہوسکتا ہے قربانی کی نیکیاں اتنی ہیں کہ ہمارے لیے ان کو گننا ہی ممکن نہیں ۔ اتنی زیادہ نیکیاں کمانے کے لیے اگر ایک چھوٹا سا عمل کرنا پڑے اور تھوڑے سے مال کے ساتھ تھوڑی سے وقت وجان کی قربانی دینا ہو تو اس سے زیادہ نفع کا سودا اور کیا ہوگا۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو قربانی کی