عمل ہمیشہ کے لیے مشروع ہوگیا اور یہی عمل امتِ محمدیہ کے لیے بھی قابل عمل قرار پایا۔
قربانی ایک اہم عبادت ہے اور شعائر اسلام میں سے ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے بھی اس کو عبادت سمجھا جاتا تھا ۔ مگر بتوں کے نام پر قربانی کرتے تھے ، آج تک بھی اسی طرح اور اسی نہج پر دوسرے مذاہب اور دیگر قوموں میں قربانی مذہبی رسم کے طور پر ادا کی جاتی ہے ۔ ہندوستان کی قوم ہنود اپنے معبودوں کے نام پر قربانی کرتے ہیں ، قوم نصاریٰ مسیح کے نام پر قربانی کرتے ہیں لیکن ہم کواللہ کے بندے ہونے اور امت محمدیہ علی صاحبہا الصلاۃ والتسلیم میں رہنے کا شرف حاصل ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَر( ترجمہ : آپ اپنے رب کے لئے نماز ادا کیجئے اور قربانی کیجئے) ۔ اللہ تبارک وتعالی ٰنے قرآن پاک میں محبوب دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ جس طرح نماز اللہ کے علاوہ کسی کی نہیں ہو سکتی اسی طرح قربانی بھی اسی کے نام پر ہونیء چاہئے ۔ اللہ تعالیٰ نے دوسری آیت میں اسی مفہوم کو دوسرے عنوان سے اس طرح بیان فرمایا ہے اِنَّ صَلاَتِی وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ۔ ترجمہ یقیناً میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنااللہ کے لئے ہے جو دونوں جہاں کا پالنہار ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں تیرہ سال قیام پذیر تھے پھر جب مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت فرمائے تو بعد ہجرت دس سال مدینہ منورہ میں قیام فرمایا ، ہر سال برابر قربانی کرتے تھے ۔ اس سے صاف طور پر واضح ہوتا ہے کہ قربانی کا مبارک عمل ہر سال ادا کرنا واجب ہے جبکہ اس کے وجوب کے شرائط پائے جائیں ۔
قربانی کا یہ عمل اپنے اندر بہت سا خیر لیے ہوئے ہے۔ احادیث میں آتا ہے کہ