ارشاد فرمایا کہ جب شعبان کی پندرہویں شب ہوتو اس شب میں قیام کرو اور اس دن روزہ رکھو۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ غروبِ آفتاب کے وقت سے آسمانِ دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ کوئی مغفرت طلب کرنے والا ہے کہ میں مغفرت کروں ، کیا کوئی رزق کا متلاشی ہے کہ اسے میں رزق عطا کروں ۔ کیا کوئی مصیبت کا مارا ہوا ہے کہ میں اس کی مصیبت دور کروں وغیرہ وغیرہ۔ صبح صادق کے وقت تک ایسا اعلان ہوتا رہتا ہے ۔ [ابن ماجہ ، بیہقی فی شعب الایمان]ا س روایت میں شعبان کی پندرہویں تاریخ کو روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اس دن روزہ رکھنا مستحب ہے واجب نہیں ۔
مطلق ماہِ شعبان میں رسول اللہ ﷺ کا زیادہ روزے رکھنا بیشمار احادیث میں منقول ہے ۔ اس لیے ماہ شعبان میں کثرت سے روزہ رکھنے کا اہتمام کرنا چاہیے ۔ لیکن ماہِ رمضان سے پندرہ دن پہلے روزہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے تاکہ رمضان کا استقبال مکمل نشاط وانبساط اور چستی اور تیاری کے ساتھ کیا جائے ۔ کمزوری اور ضعف واضمحلال کے ساتھ نہیں ۔
جن گنہگاروں کی اس بابرکت رات میں بھی مغفرت نہیں ہوتی وہ یہ ہیں : مشرک ، قاتل ، والدین کا نافرمان، بغض وعداوت رکھنے والا ، رشتہ ناطہ توڑنے والا۔ تکبرانہ طور پر ٹخنوں سے نیچے کپڑا پہننے والا، شرابی، زانی۔ اگر مذکورہ افراد اپنے ان برے اعمال سے سچی توبہ کرلیں اور اپنے اوپر بندوں کے جو حقوق لازم ہیں ان کو ادا کریں یا ان سے معافی مانگ لیں تو ان کی مغفرت کی بھی امید کی جاسکتی ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک ارشاد ہے کہ رمضان کی ہر رات میں ایک منادی کو حکم ہوتا ہے کہ تین مرتبہ یہ آواز دے کہ ہے کوئی مانگنے والا جس کو میں عطا کروں ۔ہے کوئی توبہ کرنے والا کہ میں اس کی توبہ قبول کروں ، ہے کوئی مغفرت چاہنے والا کہ میں