خلاصی عطا فرماتے ہیں ۔ شبِ برات کے بارے میں قرآن مجید میں کیا ہے اس پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں انا انزلنہ فی لیلۃ مبارکۃ ہم نے قرآن مجید کو ایک مبارک رات میں اتارا ۔ اب یہاں مبارک رات سے مراد بعض مفسرین جیسے حضرتِ عکرمہ وغیرہ حضرات کے نزدیک شبِ برات ہے ، [ہر زمانے کے مشہور ومعروف مفسرین اپنی تفسیروں میں حضرتِ عکرمہ کا قول نقل کرتے آئے ہیں ]جب کہ اکثر مفسرین کے نزدیک شبِ قدر۔ اس لیے کہ اللہ جل شانہ فرماتے ہیں اِنَّا اَنْزَلْنَاہُ فِی لَیْلَۃِ الْقَدَر اس اعتبار سے یہ طے شدہ امر ہے کہ قرآن کا نزول تو شبِ قدر میں ہوا لیکن اِنَّا اَنْزَلْنَاہُ فِی لَیْلَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ کے بعد فِیْھَا یُفْرَقُ کُلَّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ والی آیت ہے ۔ اس سے حضراتِ مفسرین نے استدلال فرمایا کہ یہاں لیلۃِ مبارکہ سے مراد شبِ برات ہے ۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ تمام اہم فیصلے ، حکمت والے فیصلے ، قضا قدر کے فیصلے اسی رات میں فرماتے ہیں ۔ نیز یہ فیصلے بھی ہوتے ہیں کہ کس کو کتنی عمر دینی ہے اور کس کی زندگی باقی ہے ۔ کس کو کتنا رزق دینا ہے اور کتنا رزق ابھی باقی ہے وغیرہ وغیرہ۔
حضراتِ مفسرین کرام ان دونوں آیتوں میں بظاہر تعارض نظر آتا ہے اس کو دور کرتے ہوئے اس طرح تطبیق دیتے ہیں کہ اِنَّا اَنْزَلْنَاہُ فِی لَیْلَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے شبِ برأت میں قرآن مجید کو اتارنے کا فیصلہ کیا۔ اس لیے کہ تمام اہم فیصلے شبِ برأت میں ہوتے ہیں تو تمام اہم فیصلوں کے ساتھ یہ اہم اور مہتم بالشان فیصلہ بھی ہوا کہ رمضان کے مہینے میں شبِ قدر میں قرآن مجید کو اتارا جائے گا۔ اور اِنَّا اَنْزَلْنَاہُ فِی لَیْلَۃِ الْقَدَر کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے شبِ قدر میں قرآن مجید کواتار دیا۔ بعض علماء نے شبِ قدر اور شبِ برأت میں نزولِ قرآن کی تطبیق اس طرح دی ہے کہ شبِ برأت میں پورا