ہیں ، مکاتب قائم ہیں ،اسکول چلائے جارہے ہیں ، بڑے بڑے کالج اور بلکہ یونیورسٹیاں قائم ہورہی ہیں ۔ لوگ پڑھ رہے ہیں ، پڑھارہے ہیں ، سیکھ رہے ہیں ، سکھارہے ہیں ، تعلیم دے رہے ہیں ، تعلیم حاصل کررہے ہیں ، مدارس کھولے جارہے ہیں ، مجلس منتظمہ قائم ہوتی ہے ، اور ان پڑھنے پڑھانے والوں کے لیے جتنی ضرورتیں ہیں ان ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ، اورایک طرفد دین کی حفاظت کے لیے علماء ،حفاظ ، قراء کودین کا علم رکھنے والے ، دین کی سمجھ رکھنے والے ، دین کا تفقہ رکھنے والے پیدا کیے جارہے ہیں ۔تو دوسری طرف عصری علوم کے ماہرین ، بہترین ڈاکٹرس، انجیئرس اور مختلف عصری شعبوں کے لیے درکار افراد کی کھیپ کی کھیپ تیار کی جارہی ہے ۔
علم کی فضلیت اس واقعہ سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے مسجد نبوی میں ، دیکھا کہ صحابہ کا ایک حلقہ بیٹھا ہوا ہے اور اللہ کا نام لے رہا ہے ، اللہ کا ذکر کررہا ہے ، خدا کی یاد میں منہمک ہے ، اور اس کے تذکرے میں مشغول ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محبت کی نگاہ ڈالی ، شفقت کی نظر سے دیکھا انہیں ، اور پھر ایک دوسرے حلقے پر نظر پڑی آپ کی ، دیکھا کہ اس میں کچھ صحابہ بیٹھے ہیں ، اور سیکھ رہے ہیں ،سکھا رہے ہیں ، کچھ مسائل بتائے جارہے ہیں ، لوگ سمجھ رہے ہیں ، اور اس طرح تعلیم وتعلم کا سلسلہ جاری ہے ۔ فرمایا: یہ دونوں بھلائی پر ہیں ، دونوں حلقے خیر پر ہیں ، لیکن مجھے اس حلقے میں بیٹھنا ہے جو تعلیم وتعلم میں لگا ہے ، اس لیے کہ مجھے معلم بنا کربھیجا گیا ہے اِنَّمَا ُبعِثْتُ مُعَلِّماً۔
آج کا دور تعلیمی بیداری کا دور ہے ۔ ایک زمانے میں شاعر نے جو سادہ سا شعر کہا تھا
پڑھو گے لکھوگے تو ہوگے نواب
صرف کھیلو کودوگے ، ہوگے خراب