شارحین حدیث فرماتے ہیں اور ہم نے اپنے استاذ حکیم الملت امیر شریعت قبلہ کی زبانی بارہا سنا ہے کہ یہ اقراء کا لفظ بھی اللہ کے کلام کا حصہ تھا، اور جتنی آیتیں لے کر آئے تھے جبرئیل،وہ سب اللہ کا کلام ہے اور اللہ کے کلام میں جو عظمت تھی، جو وزن تھا ، جو وقار تھا، جو ثقل تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ احساس فرمایا کہ میں اپنی زبان سے ان کلمات کو ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ، اسی لیے جبرئیل سے فرمایا کہ میں پڑھ نہیں سکتا ۔ جبرئیل علیہ السلام نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر عبدیت کا غلبہ ہے ، اور اپنے کمالات کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ نہیں ہے اور حضور یہ سمجھ رہے ہیں کہ آپ اسے پڑھ نہیں سکتے سینے سے لگا کر دبایا ، ایک بار، دو بار، تین بار، اور رسول اللہ کے کمالات کی طرف متوجہ کرانے کی جبرئیل نے کوشش کی کہ پیغمبر یہ کلام آپ ہی پڑھ سکتے ہیں ، آپ کے سواء کوئی اسے نہیں لے سکتا ،تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ آیات تلاوت کیں ۔
بہرحال خلاصۂ کلام یہ کہ سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک جو وحی پہنچی ، اس میں پڑھنے کا حکم ہے ، کتاب اور قلم کا تذکرہ ہے ، تویہ اسلام کی سب سے پہلی بنیاد ہے ۔ اس میں پڑھنے پڑھانے ، سیکھنے سکھانے، قرطاس وقلم ، لکھنے لکھانے کی تعلیم دی گئی اور پیغام سنا یا گیا ،تو ہمارا اور آپ کا دین اسلام ، پڑھنے پڑھانے کا دین ہے ، قرأت کا دین ہے ، تلاوت کا دین ہے ، لکھنے لکھانے کا دین ہے ، تصنیف وتالیف کا دین ہے ، کتابوں کادین ہے، مدرسوں کا دین ہے ، جامعات کا دین ہے ، دارالعلوموں کا دین ہے ، مکاتب کا دین ہے اور اسلام یہ چاہتا ہے کہ اس مذہب کے ماننے والے اپنی بنیاد پڑھنے پڑھانے پر ، لکھنے لکھانے پر رکھیں ، پڑھیں ، پڑھائیں ، سیکھیں ، سکھائیں ، درس وتدریس ، تعلیم وتعلم کا یہ دین ہے ، اس لیے اسلامی معاشرہ میں دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ جگہ جگہ مدارس قائم