آج ہمارے اس دور میں اپنے تمام مفاہیم کے ساتھ جلوہ گر ہے ۔ گرچہ ہمارے اس دور میں کھیل کود نے بھی پروفیشن کی راہ اختیار کرلی ہے اور اس زہریلے سچ سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ایک پروفیشنل کھلاڑی ایک کھیل میں جتنا کما لیتا ہے ، ایک اچھا پڑھا لکھا آدمی پورا مہینہ محنت کرکے بھی اتنا مشاہرہ نہیں پاتا۔ لیکن درست بات یہی ہے کہ اس دنیا کو اپنی بقا کے لیے بھی اور اپنی ترقی کے لیے بھی پڑھے لکھے لوگوں کی ضرورت ہے ۔کھلاڑیوں کی ضرورت نہیں ۔ اور یہ بھی عام مشاہدہ ہے کہ ہزاروں لڑکے کھیل میں اپنی قسمت آزمائی کرتے ہیں ، موقع کسی ایک یا دو کو ہی ملتا ہے باقی سب اپنی بہترین عمر ضائع کرنے کے بعد کفِ افسوس ملتے رہ جاتے ہیں ۔ جب کہ تعلیم کے شعبوں سے وابستہ افراد ایک منظم زندگی گزارتے ہیں ۔ امتحان میں اچھے نتائج پاکر بہترین ملازمتوں کے لیے اپلائی کرتے ہیں ، یہاں بھی یہ ہوتا ہے کہ اکا دکا کوئی گر جاتا ہے ، لیکن اکثر ایجوکیٹیڈ افراد کو بہترین ملازمتیں مل ہی جاتی ہیں ، اور جو خود اپنا بزنس کرتے ہیں وہ بھی کامیاب زندگی گزارتے ہیں ۔ گویا کھیل کود میں کامیاب زندگی کی شرح ہزار میں ایک ہے تو پڑھنے پڑھانے میں کامیاب زندگی کی شرح ہزار میں نو سو ننانوے ۔ اب یہ ہمارے اختیار کی بات ہے کہ ہم کس ڈگر پر چلتے ہیں ۔