میں معصومیت ، حسن اخلاق، اور علم وعمل کے جو نمونے ان آنکھوں نے دیکھے ہیں ، ان کے نقوش دل ودماغ سے محو نہیں ہوسکتے ۔ خان صاحبؒ ان لوگوں میں سے تھے جو اپنی مختصر ملاقات میں بھی ذہن ودل پر دیرپا نقوش چھوڑ جاتے ہیں ۔
صحافت کی دنیا سے وابسطہ ہونے کے ناطے آپ کی تحریروں میں عجیب سحر انگیزی تو تھی ہی ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو خطابت کا بھی دل کش اسلوب بخشا تھا۔ آپ کی تقریریں بڑی مقبول ہوتی تھیں ،گویا آپ کے الفاظ علم کے سمندر کے موتی ہیں جو ڈھل ڈھل کر آپ کے سینے سے نکل رہے ہیں ، یا ایک ابرِ کرم ہے جو برس کر سامعین کو سیراب کررہا ہے ۔
آپ جس مجلس میں بیٹھتے اسے باغ وبہار بنا دیتے ۔ خان صاحبؒ کے تبحر علمی پر غور کریں تو ذہن مسحور ہوجاتا ہے ، ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے سارا علم وفضل اورساری ذہانت وذکاوت اسی ایک شخص کے حصے میں آگئی ہے ۔ علوِ استعداد اور علوِ ہمت جناب خان صاحب کی شخصیت کی خصوصیت تھی۔ اور انہی دو چیزوں نے آپ کو ایسا شرف وامتیاز عطا کیا تھا اور علمی جامعیت کی وہ شان عطا کی جس کی نظیر نہیں ملتی۔
ہمارے ملک میں ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے جنہیں فنا فی العلم کہا جاسکے ۔ اور جن کی نشست وبرخاست سے لے کر سوچ بچار تک کا محور علم ہی علم ہو۔ جناب خان صاحب ؒ کا شمار ایسے ہی افراد میں ہوتا تھا۔ بر صغیر کی علمی ادبی اور سیاسی تاریخ آپ کے مطالعہ اور تحقیق کا خاص موضوع تھا، اوراللہ تعالیٰ نے اس موضوع پر آپ کو بے مثال عبور عطافرمایا تھا۔ چنانچہ آپ کے سامنے علم وادب سے تعلق رکھنے والی بر صغیر کی کسی بھی ایسی شخصیت کا نام لیجئے ، جس نے کوئی معمولی سا بھی کام کیا ہو ، وہ شخصیت چاہے کتنی ہی غیر