تاریک فتنے اور قیامت کی علامات |
|
مَالِي، إِنَّمَا لَهُ مِنْ مَالِهِ ثَلَاثٌ: مَا أَكَلَ فَأَفْنَى،أَوْ لَبِسَ فَأَبْلَى، أَوْ أَعْطَى فَاقْتَنَى،وَمَا سِوَى ذَلِكَ فَهُوَ ذَاهِبٌ،وَتَارِكُهُ لِلنَّاسِ۔(مسلم:2959) بے شک دینار و دراہم (مال و دولت)نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کرڈالا ہےاور میں تمہارے بارے میں بھی یہی خیال کرتا ہوں کہ یہ تمہیں بھی ہلاک کرڈالے گا۔إِنَّ هَذَا الدِّينَارَ وَالدِّرْهَمَ أَهْلَكَا مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ , وَلَا أَرَاهُمَا إِلَّا مُهْلِكَاكُمْ۔(شعب الایمان :9815) مندرجہ بالا ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ مال ایک زبردست فتنہ اور آزمائش کے طور پر مقرر کیا گیا ہے ، اور اِس میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو اس کے حقوق کو بحسن و خوبی اداء کرتے ہیں، مال کے حقوق مندرجہ ذیل ہیں:مال کے حقوق: مال کے اندر دو طرح کے حقوق ہیں : (1)مال کے کسب کے حقوق۔ (2)مال کے صَرف یعنی خرچ کرنے کے حقوق۔ کسب ِ مال کے حقوق: ذریعہ معاش حلال ہو نا :حدیث میں حلال کمانے کو دوسرے فرائض کی طرح ایک فرض قرار دیا گیا ہے۔ طَلَبُ كَسْبِ الْحَلَالِ فَرِيضَةٌ بَعْدَ الْفَرِيضَةِ۔(شعب الایمان :9815) طریقۂ کسب حلال ہونا: یعنی کسی جائز طریقہ معاش میں بھی اِس بات کی اجازت نہیں ہوتی کہ جھوٹ ، دھوکہ ، اور مکر وفریب کے ذریعہ یا قسمیں (اگرچہ وہ سچی ہی کیوں نہ ہوں)کھاکھاکر پیسہ کمایا جائے، شریعت نے اُس کی بھی حدود و قیود ذکر کردی ہیں ، جن کی رعایت ضروری ہے، ورنہ مال بسا اوقات حلال ذریعہ معاش میں بھی حرام ہوجاتا ہے۔حدیث میں ہے:سچا امانت دار تاجر قیامت کے دن انبیاء ، صدیقین اور شہداء کرام کے ساتھ ہوگا:التَّاجِرُ الصَّدُوقُ الأَمِينُ مَعَ النَّبِيِّينَ، وَالصِّدِّيقِينَ، وَالشُّهَدَاءِ۔(ترمذی:1209)إِنَّ التُّجَّارَ يُبْعَثُونَ يَوْمَ القِيَامَةِ فُجَّارًا، إِلَّا مَنْ اتَّقَى اللَّهَ، وَبَرَّ، وَصَدَقَ۔(ترمذی:1210)