تاریک فتنے اور قیامت کی علامات |
|
فَإِنَّمَا عَلَيْهِمْ مَا حُمِّلُوا وَعَلَيْكُمْ مَا حُمِّلْتُمْ۔(ترمذی:2199)قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ بَعْدِي أَثَرَةً وَأُمُورًا تُنْكِرُونَهَا، قَالُوا:فَمَا تَأْمُرُنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:أَدُّوا إِلَيْهِمْ حَقَّهُمْ، وَسَلُوا اللَّهَ حَقَّكُمْ۔(بخاری:7052)قرآن کریم کو تھامنا : فتنوں کے دور میں ایک اہم تعلیم جس سے بڑی حد تک صرفِ نظر کیا جاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی لاریب و لازوال کتاب کو تھامنا ہے ۔ایک موقع پرنبی کریمﷺنے جب فتنوں کی پیشینگوئی فرمائی تو حضرات صحابہ کرامنے اُس سے نکلنے کا راستہ دریافت کیا ، آپﷺنے فرمایا:اللہ کی کتاب ۔یعنی قرآن مجید کو تھامنا ایک ایسا نسخہ اکسیر ہے کہ جس کے ذریعہ فتنوں کی تاریکیوں سے بچا جاسکتا ہے۔أَلَا إِنَّهَا سَتَكُونُ فِتْنَةٌ. فَقُلْتُ: مَا المَخْرَجُ مِنْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:كِتَابُ اللَّهِ۔(ترمذی:2906) حضرت حارث اعور فرماتے ہیں کہ میں ایک دن کوفہ کی مسجد میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے پاس گیا تو میں نے دیکھا کہ وہ لوگ بیکار و لایعنی گفتگو (یعنی قصے کہانیوں) میں مصروف ہیں (اور انہوں نے قرآن مجید کی تلاوت وغیرہ ترک کی ہوئی ہے) چنانچہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے اس بارہ میں بتایا، انہوں نے فرمایا کیا انہوں نے واقعی ایسا کیا ہے (کہ تلاوت قرآن مجید چھوڑ کر بیکار باتوں میں مصروف ہیں؟) میں نے کہا کہ جی ہاں! انہوں نے فرمایا تو پھر سن لو میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ خبردار! فتنہ واقع ہو گا (یعنی لوگوں کے دینی افکار و عقائد میں اختلاف ہو گا، اعمال میں سست روی اور گمراہی پیدا ہوگی اور وہ گمراہ لوگ اسلام کے نام پر نت نئے مذاہب و نظریات کی داغ بیل ڈالیں گے) میں نے عرض کیا کہ حضرت ﷺ ! پھر اس سے نجات پانے کا کیا راستہ ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کتاب اللہ (یعنی نجات کا راستہ قرآن پر عمل کرنے ہی سے ہاتھ لگے گا) جس میں تم سے پہلے لوگوں (یعنی پچھلی امتوں) کے حالات بھی ہیں اور ان باتوں کی خبر بھی دی گئی ہے جو تمہارے بعد واقع ہونے والی ہیں (یعنی قیامت کی علامات و احوال) اور اس قرآن میں وہ احکام بھی مذکورہ ہیں جو تمہارے درمیان (ضروری ) ہیں (یعنی ایمان و کفر، اطاعت و گناہ حلال و حرام اور اسلام کے شرائع نیز آپس کے تمام معاملات وغیرہ کے بارہ میں احکام بیان کئے