تاریک فتنے اور قیامت کی علامات |
|
مسلمانوں کی اجتماعیت کے ساتھ وابستگی: فتنوں کے زمانے میں نبی کریمﷺکی ایک تعلیم یہ بھی ہے کہ اہلِ حق کی جماعت اور اُن کے امام کے ساتھ جڑ کر رہا جائے، اگر اہلِ حق کی کوئی جماعت اور کوئی امام نہ ہو تو تمام فرقوں سے الگ تھلگ رہنا چاہیے جیسا کہ حدیث میں اِس کی صراحت کی گئی ہے۔حضرت حذیفہ بن یمان بیان کرتے ہیں کہ لوگ رسول اللہ ﷺ سے خیر کے متعلق سوال کرتے تھے اور میں آپ سے شر کے متعلق پوچھا کرتا تھا، اس خوف سے کہ کہیں وہ مجھے نہ پالے، چنانچہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! ہم جاہلیت اور برائی میں تھے، اللہ نے ہمارے پاس یہ خیر بھیجا، تو کیا اس خیر کے بعد کوئی شر ہوگا؟ آپ نے فرمایا: ہاں! میں نے پوچھا: اس شر کے بعد بھی خیر ہوگا؟ آپ نے فرمایا: ہاں! اور اس میں کچھ کمزوری ہوگی، میں نے پوچھا: اس کی کمزوری کیا ہوگی؟ آپﷺ نے فرمایا: وہ ایسے لوگ ہوں گے کہ میرے طریقہ کے خلاف چلیں گے، ان کی بعض باتیں تو تمہیں اچھی نظر آئیں گی اور بعض باتیں بری نظر آئیں گی، میں نے پوچھا: کیا اس خیر کے بعد بھی کوئی شر ہوگا؟ آپ نے فرمایا: ہاں! کچھ لوگ جہنم کی طرف بلانے والے ہوں گے، جو ان کی دعوت کو قبول کرے گا وہ اس کو جہنم میں ڈال دیں گے، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ ان لوگوں کی کچھ حالت ہم سے بیان فرمائیں، آپﷺ نے فرمایا: وہ ہماری قوم میں سے ہوں گے اور ہماری زبان میں گفتگو کریں گے، میں نے عرض کیا: اگر میں وہ زمانہ نہ پالوں تو آپﷺ مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ فرمایا: مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کے ساتھ رہو! میں نے کہا: اگر ان کی جماعت اور امام نہ ہو تو؟ فرمایا: ان تمام جماعتوں سے علیحدہ ہوجاؤ اگرچہ تمہیں درخت کی جڑچبانی پڑے؛ یہاں تک کہ اسی حال میں تمہاری موت آجائے۔حُذَيْفَةَ بْنَ اليَمَانِ، يَقُولُ: كَانَ النَّاسُ يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الخَيْرِ، وَكُنْتُ أَسْأَلُهُ عَنِ الشَّرِّ، مَخَافَةَ أَنْ يُدْرِكَنِي، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا كُنَّا فِي جَاهِلِيَّةٍ وَشَرٍّ، فَجَاءَنَا اللَّهُ بِهَذَا الخَيْرِ، فَهَلْ بَعْدَ هَذَا الخَيْرِ مِنْ شَرٍّ؟ قَالَ: «نَعَمْ» قُلْتُ: وَهَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الشَّرِّ مِنْ خَيْرٍ؟ قَالَ:«نَعَمْ، وَفِيهِ دَخَنٌ» قُلْتُ: وَمَا دَخَنُهُ؟ قَالَ: «قَوْمٌ يَهْدُونَ بِغَيْرِ هَدْيِي، تَعْرِفُ مِنْهُمْ وَتُنْكِرُ» قُلْتُ: فَهَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الخَيْرِ مِنْ شَرٍّ؟ قَالَ: «نَعَمْ، دُعَاةٌ عَلَى أَبْوَابِ جَهَنَّمَ، مَنْ أَجَابَهُمْ إِلَيْهَا قَذَفُوهُ فِيهَا» قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ صِفْهُمْ لَنَا، قَالَ: «هُمْ مِنْ جِلْدَتِنَا، وَيَتَكَلَّمُونَ بِأَلْسِنَتِنَا» قُلْتُ: فَمَا تَأْمُرُنِي إِنْ أَدْرَكَنِي ذَلِكَ؟ قَالَ: «تَلْزَمُ جَمَاعَةَ المُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ» قُلْتُ: فَإِنْ