تاریک فتنے اور قیامت کی علامات |
|
روکیں گے تو فتنہ ہوگا ، کیا وہ گناہ اور نافرمانی فتنہ نہیں ؟ اور کیا اُس نافرمانی پر آنے والے عذابِ خداوندی سے وہ لوگ بچ سکیں گے جنہوں نے روکنے کی طاقت رکھنے کے باوجود اُس میں کوتاہی کا ارتکاب کیا تھا؟ ۔لَا يَمْنَعَنَّ أَحَدَكُمْ مَخَافَةُ النَّاسِ أَنْ يَتَكَلَّمَ بِحَقٍّ إِذَا عَلِمَهُ۔(سنن بیہقی:20180)لَا يَمْنَعَنَّ أَحَدَكُمْ مَهَابَةٌ أَنْ يَتَكَلَّمَ بِحَقٍّ إِذَا عَلِمَهُ۔(شعب الایمان :7165)لَا يَمْنَعَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْ يَقُولَ فِي الْحَقِّ إِذَا رَآهُ وَعَلِمَهُ۔(شعب الایمان :7166)لَا يَنْبَغِي لِامْرِئٍ يَقُومُ مَقَامًا فِيهِ مَقَالُ حَقٍّ إِلَّا تَكَلَّمَ بِهِ، فَإِنَّهُ لَنْ يُقَدِّمَ أَجَلَهُ، وَلَا يَحْرِمَهُ رِزْقًا هُوَ لَهُ۔(شعب الایمان :7172)عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ,رَضِيَ اللهُ عَنْهُ ,عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ اللهَ لِيَسْأَلُ الْعَبْدَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَنْ كُلِّ شَيْءٍ,حَتَّى يَسْأَلَ: مَا مَنَعَكَ إِذْ رَأَيْتَ مُنْكَرًا أَنْ تُنْكِرَهُ؟۔(سنن بیہقی:20183)أَيُّهَا النَّاسُ , إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ:مُرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَدْعُونِي فَلَا أُجِيبَكُمْ , وَتَسْأَلُونِي فَلَا أُعْطِيَكُمْ , وَتَسْتَنْصِرُونِي فَلَا أَنْصُرَكُمْ۔(سنن بیہقی:20200)فَلَعَمْرِي لَأَنْ تَكَلَّمَ فَتَأْمُرَ بِالْمَعْرُوفِ أَوْ تَنْهَى عَنْ مُنْكَرٍ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَسْكُتَ۔(شعب الایمان :7171)كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ، فَالإِمَامُ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ، وَالمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى بَيْتِ زَوْجِهَا وَهِيَ مَسْئُولَةٌ، وَالعَبْدُ رَاعٍ عَلَى مَالِ سَيِّدِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ، أَلاَ فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ۔(بخاری:5188)مادیت کا فتنہ : ایک بنیادی اور بڑا فتنہ ”پیٹ“ کا ہے‘ شکم پروری وتن آسانی زندگی کا اہم ترین مقصد بن کر رہ گیا ہے، ہرشخص کا شوق یہ ہے کہ لقمہٴ تر اس کی لذتِ کام ودہن کا ذریعہ بنے اور یہ فتنہ اتنا عالم گیر ہے کہ بہت کم افراد اس سے بچ سکے ہیں‘ تاجر ہو یا ملازم‘ اسکول کا ٹیچر ہو یا کالج کا پروفیسر،دینی درس گاہ کا مدرس ہو یا مسجد کا امام اس آفت میں سبھی مبتلا نظر آتے ہیں، ہاں! فرقِ مراتب ضرور ہے،زہد وقناعت،ورع وتقویٰ اور اخلاص وایثار جیسے اخلاق وفضائل اور ملکات کا نام ونشان نہیں ملتا‘ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج کا پورا عالم سازو سامان کی فراوانی کے باوجود حرص وآرزو‘ طمع ولالچ اور زرطلبی وشکم پروری کی بھٹی میں جل رہا ہے اور کرب واضطراب ، بے چینی وبے اطمینانی اور حیرت وپریشانی کا دھواں ہر چہار سمت پھیلا ہوا ہے، قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : تم دنیا کی زندگی کوآخرت پر ترجیح دیتے ہو،حالانکہ آخرت دنیا سے بدرجہا بہتر اور لازوال ہے۔بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا۔(الاعلیٰ :16)