تاریک فتنے اور قیامت کی علامات |
|
ایک اہم تنبیہ : واضح رہے کہ مسلمانوں کا کافروں سے لڑنا اور اُن پر فتح حاصل کرنا جس کو ” جہاد“کہا جاتا ہے ، یہ ”فتنہ“ نہیں ہے جیسا کہ مغرب نے اِس پروپیگنڈے کو عام کیا ہوا ہے اور اُن کے دیکھا دیکھی میں بہت سے سادہ لوح مسلمان بھی یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ جہاد فتنہ ہے ، غنڈہ گردی ہے ، دہشت گردی ہے ، انسانی حقوق کی پامالی ہے وغیرہ وغیرہ ۔خوب اچھی طرح سے سمجھ لینا چاہیئے کہ مسلمانوں کا کافروں سے لڑنا اور اُن پر فتح حاصل کرنا ہر گز ہر گز فتنہ نہیں ، یہ تو جہاد ہے اور عین عبادت بلکہ عبادت کی بھی اعلیٰ ترین شکل ہے ، جس کی سب سے بڑی دلیل خود نبی کریمﷺکی اور حضرات صحابہ کرام کی مبارک اور پاکیزہ زندگیاں ہیں ، اگر کفار سے لڑنا ”فتنہ “ ہوتا تو(نعوذ باللہ ) خود نبی کریمﷺ اور آپ کے جانثار صحابہ سب سے بڑے ”فتنہ پرور“ ہوتے ، جہاد کو تو خود اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فتنہ کا سدِّ باب قرار دیا ہے ، چنانچہ ارشادِ باری ہے : ﴿وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ﴾۔(الانفال :39) حضرت علقمہ فرماتے ہیں جب اہلِ حق اہلِ باطل پر غالب آجائیں تو یہ کوئی فتنہ نہیں ہے :۔إِذَا ظَهَرَ أَهْلُ الْحَقِّ عَلَى أَهْلِ الْبَاطِلِ فَلَيْسَ هِيَ بِفِتْنَةٍ۔(ابن ابی شیبہ : 37617)دنیا ایک فتنہ ہے : احادیث طیبہ میں نبی کریمﷺ کی وہ دعائیں جن میں آپ نے مختلف چیزوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگی ہے اُن میں ایک ”دنیا کا فتنہ “ بھی ہے ،نبی کریمﷺنمازوں کے بعد یہ دعاء پڑھا کرتے تھے: اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الجُبْنِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ البُخْلِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ أَرْذَلِ العُمُرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الدُّنْيَا، وَعَذَابِ القَبْرِ۔(ترمذی:3567)حضرت سعد کے بارے میں آتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو یہ دعاء ایسے سکھاتے تھے جیسے کوئی مکتب کا معلّم پڑھنے بچوں کو سبق یاد کراتا ہے۔(ترمذی:3567)اِس سے معلوم ہوا کہ دنیا بھی اللہ تعالیٰ کی جانب سے پیدا کردہ ایک فتنہ ہے اور اُس سے پناہ مانگنے کی تعلیم دی گئی ہے۔